دل کی موروثی بیماری کا خراب جین نکال باہر کردیا گیا
انسانی جین میں ترمیم کی ایک ایسی کامیابی جس سے امیدوں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں خدشات بھی وابستہ ہیں۔ (فوٹو: فائل)
انسانی جین میں ترمیم کی ایک ایسی کامیابی جس سے امیدوں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں خدشات بھی وابستہ ہیں۔ (فوٹو: فائل)
کراچی: عالمی میڈیا پر خبر گرم ہے کہ سائنسدانوں کی ایک عالمی ٹیم نے جین میں تبدیلی (جین ایڈیٹنگ) کی جدید ترین تکنیک ’’کرسپر-کاس9‘‘ (CRISPR-Cas9) استعمال کرتے ہوئے انسانی جنین (ایمبریو) میں سے ایسا خراب جین نکال باہر کیا ہے جو دل کی ایک موروثی بیماری کی وجہ بنتا ہے۔ یعنی سائنسدانوں نے جین ایڈیٹنگ کی مدد سے دل کی اس بیماری کو اگلی نسل تک منتقل ہونے سے روک دیا ہے۔
توقع ہے کہ یہ کامیابی آئندہ برسوں میں سینکڑوں دوسری موروثی بیماریوں کے مؤثر علاج کا پیش خیمہ بنے گی؛ لیکن اس تحقیق میں شریک ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ مذکورہ کامیابی کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش نہ کیا جائے کیونکہ یہ ایک لمبے سفر کا پہلا قدم ہے۔ یہ کامیابی اہم ضرور ہے لیکن ابھی یہ اپنے بالکل ابتدائی مرحلے پر ہے جسے پختہ ہونے میں مزید کئی مرحلوں اور رکاوٹوں کو عبور کرنا ہے۔ چونکہ اس تحقیق کا براہِ راست تعلق انسان سے ہے اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ انہیں پھونک پھونک کر، بڑی احتیاط سے ایک ایک قدم آگے بڑھانا پڑے گا تاکہ ان تحقیقات سے انسانیت کو فائدہ پہنچے اور کوئی نقصان نہ ہو۔
البتہ یہی پیش رفت اخلاقیات کے تناظر میں متعدد سوالات اور خدشات کو مہمیز بھی کررہی ہے۔ مثلاً اس سوال کی گونج ایک بار پھر زیادہ ہوگئی ہے کہ کیا انسان اس قابل ہوجائے گا کہ وہ جین ایڈیٹنگ کی جدید تکنیکوں کی مدد سے اپنی آئندہ نسلوں کو ہر طرح کی موروثی (نسل در نسل چلنے والی) بیماریوں سے محفوظ کرسکے؟ اگر انسان اپنی جینیاتی ساخت (جنیٹک میک اپ) اپنی مرضی کے مطابق بدلنے پر قادر ہوگیا تو کیا آنے والے عشروں اور صدیوں میں ’’مافوق الفطرت انسان‘‘ (سپرمین) بنانے کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے گا؟
ایسے خدشات بھی موجود ہیں کہ انسانی جینوم سے مکمل اور گہری واقفیت نہ رکھنے کی وجہ سے ہم اس میں ایسی تبدیلیاں بھی کرسکتے ہیں جو ہماری آنے والی نسلوں کےلیے مفید کے بجائے مضر اور ہلاکت خیز ثابت ہوں؛ اور انہیں طاقتور کے بجائے معذور بنادیں۔ سماجی نقطہ نگاہ سے یہ بات بھی قابلِ تشویش ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ معاشرے کا مالدار طبقہ اپنی اگلی نسل کو جین ایڈیٹنگ کی بدولت زیادہ طاقتور، زیادہ ذہین اور زیادہ باصلاحیت بناتے ہوئے انسانی غلامی کے ایک دورِ جدید کی بنیاد رکھ دے۔
غرض کہ جین ایڈیٹنگ کے شعبے میں ہونے والی اس تازہ پیش رفت سے امیدوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں خدشات بھی وابستہ ہیں جن کا ازالہ کیے بغیر شاید ہی کوئی انقلاب انسانوں کےلیے مفید کے درجے پر فائز ہوسکے۔ ایسا کیوں کہا جارہا ہے؟ یہ جاننے کےلیے آپ کو تفصیل سے یہ سارا معاملہ سمجھنا پڑے گا۔
ریسرچ جرنل ’’نیچر‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع شدہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق امریکا، جنوبی کوریا اور چین کے ماہرین پر مشتمل ایک بین الاقوامی تحقیقی ٹیم نے مذکورہ تجربات میں ’’کرسپر-کاس9‘‘ (CRISPR-Cas9) کہلانے والی جدید تکنیک سے استفادہ کیا ہے جس نے حالیہ برسوں کے دوران جین میں تبدیلی یعنی ’’جین ایڈیٹنگ‘‘ کو ماضی کے مقابلے میں بہت آسان، تیر بہدف اور تیز رفتار بنادیا ہے۔
تجربات کےلیے پہلے مرحلے پر ایک ایسے رضاکار سے کھال کے خلیات حاصل کیے گئے جو ’’ہائپرٹروفک کارڈیو مایوپیتھی‘‘ (ایچ سی ایم) نامی موروثی بیماری میں مبتلا تھا۔
دل کو متاثر کرنے اور جوانی میں ناگہانی موت کی وجہ بننے والی یہ بیماری ’’ایم وائی بی پی سی تھری‘‘ (MYBPC3) جین میں خرابی کے باعث ہوتی ہے۔ اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں اس کے مریضوں کی تعداد 1 کروڑ 40 لاکھ کے لگ بھگ ہے؛ یعنی ہر 500 میں سے 1 انسان اس بیماری (ایچ سی ایم) سے متاثر ہے۔
ایچ سی ایم براہِ راست دل کے پٹھوں پر اثرانداز ہوتی ہے اور انہیں معمول کے مقابلے میں قدرے موٹا کردیتی ہے؛ جس کے نتیجے میں دل کی دھڑکن کسی بھی وقت رک سکتی ہے اور انسان اچانک ہی موت کے منہ میں جاسکتا ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ایچ سی ایم کی کوئی ابتدائی علامات نہیں ہوتیں جبکہ اس کی وجہ بننے والا خراب جین والدین سے بچوں میں منتقل ہو کر نسل در نسل کےلیے نادیدہ خطرہ بنا رہتا ہے۔ عام طور پر نوجوان ایتھلیٹ اس کا آسان ہدف ثابت ہوتے ہیں جو کھیل کے دوران اچانک ہی دل کی دھڑکن بند ہونے سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔
رضاکار سے کھال کے خلیات حاصل کرنے کے بعد ان میں سے خراب MYBPC3 جین علیحدہ کیا گیا جس کی مدد سے ’’کرسپر-کاس9‘‘ تکنیک پر مبنی خصوصی حکمتِ عملی ترتیب دی گئی تاکہ صرف اسی خراب جین کو ڈی این اے میں سے کاٹ کر نکال باہر کیا جاسکے۔
جب کرسپر-کاس9 اس مقصد کےلیے تیار ہوگئی تو اگلے مرحلے میں اسی رضاکار سے نطفے (sperms) لیے گئے جنہیں 12 مختلف لیکن صحت مند خواتین سے حاصل کردہ بیضوں (eggs) کے ساتھ ٹیسٹ ٹیوب میں ملایا گیا۔ اس ملاپ کے نتیجے میں ماہرین کو ایسے 58 بارور بیضے (fertilized eggs) حاصل ہوئے جو نشوونما کے مراحل طے کرنے کے بعد صرف چند خلیات پر مشتمل جنین (ایمبریو) میں تبدیل ہوگئے؛ یعنی ٹیسٹ ٹیوب میں حمل کا بالکل ابتدائی مرحلہ حاصل کرلیا گیا۔
واضح رہے کہ ’’آئی وی ایف‘‘ یا ’’ٹیسٹ ٹیوب بے بی‘‘ کہلانے والی تولیدی تکنیک میں بھی یہی سب کچھ ہوتا ہے؛ جس کے بعد یہ جنین (ایمبریو) خاتون کے رحم میں منتقل کردیا جاتا ہے جہاں یہ نو ماہ کے دوران اپنی نشوونما کی منزلیں طے کرنے کے بعد ایک بچے کی حیثیت سے جنم لیتا ہے۔
البتہ حالیہ تجربات میں سائنسدان صرف جنین تک محدود رہے اور اسی مرحلے پر انہوں نے جنین میں پہلے سے تیار شدہ کرسپر-کاس9 ’’سالماتی قینچی‘‘ (مالیکیولر سیزر) داخل کردی جسے خراب MYBPC3 جین کو کاٹ کر نکال باہر کرنے کےلیے بطورِ خاص بنایا گیا تھا۔
غیرمعمولی کامیابی
خصوصی طور پر تیار شدہ ’’کرسپر-کاس9‘‘ نے بڑی مہارت سے جنین میں موجود خراب MYBPC3 جین کو نشانہ بنایا اور اسے کاٹ کر باہر نکال دیا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ کچھ اور بھی ہوا: خراب جین کے کٹ کر علیحدہ ہوجانے پر جنین کے اپنے (قدرتی) ’’مرمتی نظام‘‘ نے سرگرمی دکھائی اور خاتون کے بیضے سے آئے ہوئے صحت مند MYBPC3 جین کی ہوبہو نقل تیار کرکے اس (خراب جین) کی جگہ لگا دی۔
ان تجربات کے دوران ’’کرسپر-کاس9‘‘ کی درستگی حیرت انگیز رہی، یعنی اس نے بہت نپے تلے انداز سے انسانی ڈی این اے میں صرف خراب MYBPC3 جین والے حصوں ہی کو نشانہ بنایا جبکہ دوسرے جین بالکل بھی نہیں چھیڑے۔ علاوہ ازیں 58 میں سے 42 جنین اس تکنیک کی بدولت بالکل درست اور صحت مند ہوگئے؛ مطلب یہ کہ ان میں تمام درست MYBPC3 جین موجود تھے۔ ان 42 میں سے بھی صرف ایک جنین ایسا تھا جس کے مختلف خلیوں میں الگ الگ طرح کے ڈی این اے موجود تھے؛ اس قسم کا جنین ’’موزائیک‘‘ کہلاتا ہے اور عملاً بے کار تصور کیا جاتا ہے۔
ان تجربات کا اہم پہلو یہ ہے کہ ان میں مرمت کے بعد درست اور صحت مند ہونے والے تمام جنین (ایمبریوز) اس قابل تھے کہ انہیں مزید نشوونما دے کر جیتے جاگتے انسان کو جنم دیا جاسکتا؛ لیکن چونکہ ان تجربات کا مقصد یہ نہیں تھا اس لیے یہ جنین بھی ضائع کردیئے گئے۔
یہ بتانا ضروری ہے کہ اس سے پہلے (2015 اور 2016 میں) چینی ماہرین بھی ’’کرسپر-کاس9‘‘ کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے ایسے ہی کم از کم دو کامیاب تجربات کرچکے ہیں جن میں تولیدی خلیات (نطفے، بیضے اور بارور بیضے) میں سے مختلف خراب جین نکال باہر کیے گئے تھے، البتہ یہ تولیدی خلیات جان بوجھ کر ایسے رکھے گئے تھے کہ اپنی نشوونما ایک خاص مرحلے سے آگے نہ بڑھاسکیں تاکہ اخلاقی اعتراضات سے بچا جاسکے۔
جین ایڈیٹنگ میں یہ اہم کامیابی اپنی جگہ لیکن اب بھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ کرسپر-کاس9 سے مستقبل میں انسانیت کو واقعتاً کوئی فائدہ پہنچے گا یا پھر موجودہ مسائل مزید سنگین ہوجائیں گے۔
Leave a Reply