زندگی بڑھانے والا پروٹین دماغی بیماریوں کا بھی دشمن
سان فرانسسکو: تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ قدرتی طور پر پایا جانے والا ایک پروٹین ’’کلوتھو‘‘ نہ صرف زندگی بڑھاتا ہے بلکہ دماغ کی اکتسابی صلاحیتوں کو بہتر بناتے ہوئے الزائیمر، پارکنسن اور دوسری کئی دماغی بیماریوں کے خلاف ڈھال کا کام بھی کر سکتا ہے۔
اگرچہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سان فرانسسکو میں یہ تحقیق چوہوں پر کی گئی ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہی نتائج انسانوں میں بھی حاصل کیے جاسکیں گے۔ اب اس پروٹین کو استعمال کرتے ہوئے ابتدائی انسانی تجربات کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ کلوتھو پروٹین انسانی دماغ اور گردوں میں قدرتی طور پر تیار ہوتا ہے جو دورانِ خون (بلڈ سرکولیشن) میں ایک ہارمون کے طور پر شامل ہو کر مختلف افعال انجام دیتا ہے۔ ایک طرف یہ جسم میں انسولین کی پیداوار کو بہتر بناتا ہے تو دوسری جانب یہ پٹھوں کو مضبوط بنانے والے خلیوں یعنی ’’فائبروبلاسٹس‘‘ کی افزائش میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔
ماضی کی تحقیقات سے پہلے ہی یہ معلوم ہو چکا ہے کہ جن لوگوں میں کلوتھو پروٹین کی زیادہ مقدار بنتی ہے وہ نہ صرف دوسروں سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں بلکہ لمبی عمر بھی پاتے ہیں۔ عام طور پر لوگوں میں عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس پروٹین کی بننے والی مقدار کم ہوتی چلی جاتی ہے جس کے اثرات دماغی اور جسمانی صحت پر بھی پڑتے ہیں۔
ان مطالعات کو دیکھتے ہوئے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سان فرانسسکو میں نیورولوجی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ڈینا ڈیوبال اور ان کے ساتھیوں نے مختلف دماغی امراض کے علاج میں کلوتھو پروٹین پر مزید تجربات کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ یہ پروٹین دماغی امراض کے علاج میں بطور دوا استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔
اس مقصد کے لیے جینیاتی ترمیم (جینیٹک موڈیفکیشن) کے ذریعے ایسے چوہے تیار کیے گئے جو الزائیمر اور پارکنسن بیماریوں میں مبتلا تھے۔ یہ بیماریاں بیک وقت کئی ایک دماغی اور اکتسابی (سیکھنے سے متعلق) صلاحیتوں پر اثر انداز ہوتی ہیں اور بڑی عمر کے لوگوں کو زیادہ متاثر کرتی ہیں۔
تجربات کے دوران جب ان چوہوں کو ’’کلوتھو پروٹین‘‘ کی اضافی مقداریں استعمال کرائی گئیں تو ان میں نمایاں طور پر افاقہ دیکھا گیا اور دونوں بیماریوں (الزائیمر اور پارکنسن) کی شدت کمزور پڑنے لگی۔
اس تحقیق نے مختلف دماغی امراض میں کلوتھو پروٹین کو بطور دوا استعمال کرنے کے امکانات روشن کیے ہیں جبکہ اس دریافت کی تفصیلات ریسرچ جرنل ’’سیل رپورٹس‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔
الزائیمر، پارکنسن اور ڈیمنشیا جیسی بیماریوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور ان کی وجہ سے مریض کا دماغ آہستہ آہستہ ناکارہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ان کی ابتدائی علامات میں حالیہ واقعات کے بارے میں کمزور یادداشت سب سے نمایاں ہے جبکہ ارتکازِ توجہ کی کمی اور سمت کے درست تعین میں مشکلات جیسے مسائل بھی عموماً مشاہدے میں آتے ہیں۔
Leave a Reply