مسلم لیگ ن کی امیدوار کلثوم نواز کیلئے بھی اقامہ پریشانی کا باعث بن گیا
(میڈیا پاکستان( این اے ایک سو بیس سےمسلم لیگ ن کی امیدوار کلثوم نواز کیلئےبھی اقامہ پریشانی کا باعث بن گیا، کاغذات کے ساتھ اقامےکی بنیاد والا دبئی کمپنی کا معاہدہ موجود نہیں، ٹیکس گوشواروں، ویلتھ سٹیٹمنٹس میں ٹیکس ریفنڈز، ہاوس ہولڈز میں بھی تضاد سامنے آ گیا، کاغذات نامزدگی عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ چودہ کی ذیلی دفعہ تین سی کی زد میں آ سکتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق این اے ایک سو بیس میں مسلم لیگ ن کی امیدوار کلثوم نواز نے کاغذات نامزدگی کیساتھ دبئی کمپنی ایف زیڈ ای کا بطور ڈپٹی چیئرمین کا اقامہ تو جمع کرایا ہے لیکن یہ اقامہ متحدہ عرب امارات کے قانون کے تحت جس تنخواہ یا اعزازی حیثیت پر مبنی معاہدے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا، وہ معاہدہ کاغذات نامزدگی کے ساتھ منسلک نہیں ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد دبئی کمپنی کی تنخواہ بطور اثاثہ ظاہر کرنا لازمی ہے، کاغذات نامزدگی کے ساتھ منسلک کلثوم نواز کے اضافی نوٹ میں نواز شریف کی تنخواہ کو اثاثہ تسلیم کیا گیا ہےلیکن اپنے کاغذات نامزدگی میں کلثوم نواز نے کمپنی کے ساتھ معاہدے یا تنخواہ کا ذکر ہی نہیں کیا۔
کلثوم نواز کےکاغذات نامزدگی میں دیگر خامیاں بھی سامنے آئی ہیں جن کے مطابق کاغذات نامزدگی میں انتخابی قوانین کےمجوزہ طریقہ کار کے مطابق بھی اثاثے ظاہر نہیں کئے گئے، کلثوم نواز کاغذات کے ساتھ منسلک 2015 اور 2016 کی ویلتھ سٹیٹمنٹ بھی تضاد ہے، دو ہزار پندرہ کی ویلتھ سٹیٹمنٹس میں کلثوم نواز نے مری کا گھر اور اسکے گیارہ لاکھ، چوہتر ہزار کے سامان کا تفصیل سے ذکر کیا ہے لیکن دو ہزار سولہ کی سٹیٹمنٹ میں گھر کے سامان کی تفصیل اور مالیت چھپائی گئی ہے، کلثوم نواز کی دوہزار چودہ کی ٹیکس ریفنڈ کی رقم تراسی ہزار دو سو بارہ روپے اور دو ہزار سولہ کی ٹیکس ریفنڈ کی رقم دو ہزار دو سو اٹھہتر روپے کو دو ہزار سولہ کی ویلتھ سٹیٹمنٹ میں بطور اثاثہ ظاہر نہیں کیا گیا جو انکم ٹیکس آرڈیننس کی دفعہ ایک سو بیس کے تحت لازمی قانونی تقاضا ہے۔
نواز شریف کے زیر کفالت ہونےکی وجہ سے انتخابی قوانین کے تحت کلثوم نواز اپنے شوہر کے اثاثوں کی تفصیلات بھی جمع کرانے کی پابند تھیں، نواز شریف کی جمع کرائی گئی ٹیکس دستاویزات کے مطابق نواز شریف نے دوہزار چودہ کے چوراسی ہزار آٹھ سو پچھہتر روپے کے ٹیکس ریفنڈ، سال دو ہزار پندرہ کے ستاسی ہزار چار سو ننانوے روپے کے ٹیکس ریفنڈ، سال دو ہزار سولہ کے دو لاکھ اکانوے ہزار تین سو اٹھانوے روپے کے ٹیکس ریفنڈ کو سال دو ہزار سولہ کی ٹیکس ریٹرن کی ویلتھ سٹیٹمنٹ میں بطور اثاثہ ظاہر نہیں کیا گیا، نواز شریف کے ٹیکس ریکارڈ کے مطابق زرعی آمدن ظاہر کی گئی ہے لیکن زرعی آمدن کی دیگر تفصیلات بشمول فصلیں، آلات، ٹیوب ویلز کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں، صرف تیس لاکھ کے مویشی ظاہر کئے گئے ہیں۔
قانونی ماہرین کےمطابق کلثوم نواز کے کاغذات نامزدگی عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ چودہ کی ذیلی دفعہ تین سی کی زد میں آ سکتے ہیں جس کے تحت ریٹرننگ افسر مس ڈیکلریشن یا غلط تفصیلات کی بنیاد پر ازخود یا اعتراضات دائر ہونے پر کاغذات نامزدگی مسترد کر سکتا ہے، سپریم کورٹ نے نواز شریف کی نااہلی کیلئے عوامی نمائندگی ایکٹ کی اس دفعہ کا بھی سہارا لیا ہے۔
Leave a Reply