اسکردو:18 فروری ( ایمرا نیوز) کے ٹو پر لاپتا پاکستانی کوہ پیماعلی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے والد کی موت کی تصدیق کردی۔5 فروری کو ساجد سدپارہ آکسیجن سلینڈر میں مسئلے کے باعث واپس بیس کیمپ آگئے تھے لیکن ان کے والد محمد علی سدپارہ بیس کیمپ سے واپس نہیں لوٹے تھے۔ پاکستان کے ہیرو محمد علی سد پارہ کو دنیا کی 14 بلند چوٹیوں میں سے 8 کو سر کرنے کا اعزاز حاصل تھا۔
گلگت بلتستان کے وزیر سیاحت راجہ ناصر خان اور علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے پریس کانفرنس کی جس میں ساجد سدپارہ نے اپنے والد کوہ پیما محمد علی سدپارہ کی موت کی تصدیق کی۔ ساجد سدپارہ کا کہنا تھا کہ وہ اپنے والد کا مشن جاری رکھیں گے اور ان کا خواب پورا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ریسکیو آپریشن پر وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ اور عسکری ایوی ایشن کے بہادر پائلٹس کا بھی مشکور ہوں۔
محمد علی سدپارہ اور غیر ملکی کوہ پیما کی تلاش کے لیے پاک فوج اور دیگر اداروں نے ریسکیو آپریشن بھی کیا لیکن کوہ پیماؤں کا کچھ پتا نہیں چل سکا۔پاکستانی کوہ پیما محمد علی سد پارہ موسم سرما میں کے ٹو سر کرنے کی مہم جوئی میں مصروف تھے اور اس مہم جوئی میں ان کے ساتھ ان کے بیٹے ساجد سدپارہ سمیت غیر ملکی کوہ پیما بھی تھے۔
26 فروری 2016 کو دنیا بھر میں محمد علی کا نام گونجا اور ایک عالمی ریکارڈ ان کے نام سے منسوب ہوا۔ اس روز نانگا پربت پر درجہ حرارت منفی 52 تھا اور تیز برفیلی آندھی بھی تھی ۔ نانگا پربت جسے قاتل پہاڑ کہا جاتا ہے اور دنیا بھر میں کوہ پیماؤں کی سب سے زیادہ برف کی قبریں اس سرد قبرستان میں موجود ہیں ، پر پاکستانی پرچم لہرایا گیا تھا۔ سردی کے موسم میں بغیر آکسیجن نانگا پربت کو سر کرنا ایک انوکھا ریکارڈ تھا اور ریکارڈ بنانے والے علی بھائی کو کوئی سرپرستی حاصل نہ تھی۔
علی سد پارہ پہلا پاکستانی کوہ پیما تھاجس نے 8000 میٹر بلند دنیا کی سات چوٹیوں کو سر کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ وہ پاکستان کی 5 بلند ترین چوٹیوں کو بھی سر کر چکا تھا جس میں 8611 میٹرز بلند K 2 بھی شامل ہے.