ن لیگ کنفیوژ بیانیے کی زد میں۔۔۔۔
عبدالکریم کے قلم سے ……..
ن لیگ آج کل ملکی سیاست میں بیانیے کی تقسیم کا شکار ہے ،پارٹی میں پہلے دوبیانیے تو چل ہی رہے تھے جیسے “ووٹ کو عزت دو” اور “مفاہمت کی سیاست” لیکن ن لیگ اب ایک اور بیانیے کو بھی لے کر چل رہی ہے وہ ہے “نو ایکسٹینشن”۔ ن لیگ ابھی سے الیکشن کی تیاری کر رہی ہے، نواز شریف بھی روزانہ کی بنیاد پر لندن میں بیٹھ کر پارٹی کے اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں مگر جیسے مریم نواز پارٹی کو ملک میں چلا رہی ہیں جس طرح بیانات دے رہی ہیں ایسے لگتا ہے وہ پارٹی کو کمزور کر رہی ہیں کیونکہ بیانیے میں کنفیوژن کی وجہ سے پارٹی بکھر تی جارہی ہے پارٹی قیادت جب کنفیوژ ہو تو پارٹی ورکر بھی منقسم ہو جاتا ہے نتیجے میں وہ کسی اورکی طرف دیکھنا شروع ہو جاتا ہے جس سے پارٹی تباہی کی طرف چلی جاتی ہے۔
ن لیگ نواز شریف کی 35 سالہ جدوجہد کا نتیجہ ہے لیکن مریم نواز کے خوفناک بیانات کی وجہ سے پارٹی کا شیرازہ بکھر رہا ہے، نواز شریف اپنی بیٹی کی ضد میں پارٹی کو تباہی کی طرف لے جارہے ہیں جس کا نقصان صرف ن لیگ کو ہوگا۔
حال ہی میں مریم نواز نے ایک بیان دیا جس میں ایک صحافی نے ان سے سوال پوچھا کہ جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دی گئی تھی اب چیئرمین نیب کو بھی دی جارہی ہے کیا کہیں گی؟ اس سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا جب چیئرمین نیب کو ایکسٹینشن دے جائے گی تب جواب دیں گے “باقی کسی ایکسٹینشن میں، میں اس گناہ میں شامل نہیں ہوں”۔ مریم نواز کے کہنے کا مطلب یہ ہے کی جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کے گناہ میں وہ شامل نہیں ہیں۔ حالانکہ جب یہ واقعہ ہوا تھا ہمیں اچھی طرح یاد ہے ن لیگ نے پارلیمنٹ میں جا کر اس ایکسٹینشن کے حق میں ووٹ ڈالا تھا۔
ہمیں یاد ہے وزیراعظم عمران خان نے اگست 2019 میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کر دی تھی لیکن سپریم کورٹ نے اس ضمن میں جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن کو معطل کر دیا تھا اور سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا حکومت اس ضمن میں 6 ماہ میں قانون سازی کرے۔
پھر جنوری 2020 میں پارلیمنٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق سپریم کورٹ کےاحکامات کی روشی میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کر کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کر دی تھی۔ اس وقت مسلم لیگ ن سمیت تمام حزب مخالف کی جماعتوں نے اس ترمیم کے حق میں ووٹ دیا تھا لیکن جماعت اسلامی اور کچھ قبائلی اراکین نے اس بات پر احتجاج کیا تھا، یہ سب باتیں ریکارڈ کا حصہ ہیں.
اب مریم نواز کے اس بیان پر حیرت ہو رہی ہے جو وہ کہہ رہی ہیں کہ میں ایکسٹینشن کے اس گناہ کا حصہ نہیں تھی ،حالانکہ سب لوگوں نے دیکھا، ن لیگ کو پارلیمنٹ میں ایکسٹینشن کے حق میں ووٹ ڈالنے کا فیصلہ نواز شریف نے کیا تھا ۔مریم نواز سیاست میں نواز شریف کے نقش قدم پر چلتی ہیں، نواز شریف کے وژن کو لے کر چلتی ہیں، ووٹرز مریم نواز کو نواز شریف کی وجہ سے پہچانتے ہیں، مریم نواز اپنے والد کے بغیر کچھ بھی نہیں لیکن کہنے والے اب یہ بات کر رہے ہیں کہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے حوالے سے مریم نواز کی سوچ نواز شریف سے مختلف تھی ،یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ مریم نواز اپنے سیاسی منٹور نوازشریف سے مختلف کیسے سوچ سکتی ہیں ؟
جب ہم شہباز شریف اور نواز شریف میں بیانیے کی تقسیم کی بات کرتے ہیں کہ یہ دونوں بھائی مختلف بیانیے رکھتے ہیں کہ نواز شریف مزاحمت کی سیاست کرتے ہیں ،اداروں کے ساتھ ٹکراؤ کی سیاست کرتے ہیں ،ووٹ کو اپنے طور پر عزت دو کی بات کرتے ہیں جبکہ شہباز شریف اداروں کے ساتھ اچھے تعلقات کی بات کرتے ہیں ،سیاست میں مفاہمت کی بات کرتے ہیں۔ شہباز شریف صاحب کا ایمان ہے کہ مفاہمت سے جمہوریت موبوط ہوتی ہے ،ہم یہ جانتے ہیں ن لیگ میں نواز شریف اور شہباز شریف دو مختلف نظریات کا نام ہیں، تب مریم نواز کہتی ہیں ن لیگ نواز شریف ہے، شہباز شریف اور نواز شریف کی سوچ میں کو ئی فرق نہیں ہے لیکن جب آرمی چیف کی ایکسٹینشن کی بات آتی ہے مریم نواز کہتی ہیں کہ اس گناہ میں وہ شریک نہیں تھیں پتہ نہیں، اس بات سے ن لیگ میں کن لوگوں کو جواب دے رہی ہیں ،پارٹی کی نائب صدر بھی ہیں لیکن پارٹی میں انتشار کی بھی بات کرتی ہیں۔
مریم نواز کے بیان سے اس بات کو تقویت ملی ہے کہ پارٹی میں ابھی بھی دو بیانیے موجود ہیں جس کی وجہ سے پارٹی ابھی تک انتشار کا شکار ہے ،اس وقت پارٹی میں دو گروپ موجود ہیں، ایک گروپ جو پارلیمانی پارٹی ہے وہ شہباز شریف کی بیانیے کے ساتھ ہے جو مفاہمت کی بات کرتا ہے جو اداروں کے ساتھ بھی ٹکراؤ نہیں چاہتا ۔یہ گروپ نواز شریف اور مریم نواز کی سوچ سے مختلف سوچتا ہے، یہ گروپ باقی پارلیمانی پارٹیوں جیسے پیپلز پارٹی ،اے این پی ہے کو بہت پسند ہے اور دوسرا گروپ جو پارٹی کے تنظیمی معاملات کو دیکھتا ہے وہ مزاحمت کی سیاست کا حامی ہے ،یہ لوگ پارٹی قیادت مریم نواز اور نواز شریف کے زیادہ قریب ہیں ان میں زیادہ تعداد لندن میں مقیم ہے۔
مریم نواز کے ایکسٹینشن سے متعلق بیان پر حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن میں ووٹ ڈا لنے کا فیصلہ پارٹی قیادت کا تھا یعنی اس کا فیصلہ نواز شریف نے کیا تھا، آرمی چیف کی ایکسٹینشن پر کو ئی ابہام نہیں ہونا چاہیے اور قوموں کی زندگی میں ایسے معاملات آتے ہیں جبکہ ایسے معاملا ت میں قومی مفاد کو ذاتی مفاد سے اوپر رکھنا چاہیے اس وقت یہ فیصلہ درست تھا ۔حمزہ شہباز کی اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے والد کی طرح اداروں سے ٹکراؤ کی سیاست پر مریم نوازسے مختلف سوچ رکھتے ہیں۔ آپ اندازہ کریں ن لیگ کی سیاست کا گڑھ پنجاب ہے کیونکہ شہباز شریف پنجاب میں تین دفعہ وزیراعلٰی رہے ہیں، اسی طرح پنجاب کے انتظامی معاملات شہباز شریف کے ہاتھ میں رہے جس کی وجہ سے حمزہ شہباز بھی ان معاملات کو چلاتے رہے ہیں ،اب حمزہ شہباز اپنی پارٹی کی وجہ سےپنجاب کے اپوزیشن لیڈر بھی ہیں ،اب ان کے پاس پنجاب کی سیاست کی آئینی ذمہ داری بھی ہے۔
اگر مریم نواز اور حمزہ شہباز بیانیے میں تقسیم رہے تو اس کا نقصان پنجاب میں پارٹی کو ہو گا، آنے والے الیکشن میں ن لیگ کنفیوژ بیانیے کی وجہ سے بہت نقصان اٹھائے گی۔ ن لیگ میں اندرونی دراڑیں کافی گہری پڑ گئی ہیں جن کا بھرنا مشکل ہو چکا ہے ۔یہ اندرونی انتشار ن لیگ کو دیمک کی طرح کھا رہا ہے اب عوام بھی کنفیوژ بیانیے اور اندرونی انتشار کی وجہ سے ن لیگ سے متنفر ہو رہے ہیں۔
ن لیگ کے ووٹر چاہتے ہیں نواز شریف وطن واپس آئیں اورپارٹی کو خود لیڈ کریں، پارٹی میں کنفیوژ بیانیے اور انتشار کو ختم کریں۔ اگر پارٹی شہباز شریف کی بجائے مریم نواز کے ہاتھ میں رہی تو ن لیگ آنے والے الیکشن میں کنفیوژ بیانیے کی نذر ہو جائے گی اور2018 کے لیکشن کی طرح نواز شریف 2023 کے الیکشن میں بھی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔۔۔
بشکریہ دنیا نیوز