سی پی ڈی آئی کے زیر اہتمام تقریب بعنوان ”شفاف اور اوپن بجٹ اور معلومات تک رسائی“
بجٹ میں شفافیت وقت کی ضرورت ہے اور حکومت اس میں بہتری کیلئے اقدامات کر رہی ہے ان خیالات کا اظہار پارلیمانی سیکرٹری برائے بہبود خواتین،رکن پنجاب اسمبلی ثانیہ کامران نے سی پی ڈی آئی کے زیر اہتمام مقامی ہوٹل میں منعقدہ تقریب بعنوان ”شفاف اور اوپن بجٹ اور معلومات تک رسائی“ سے گفتگو کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے اس سال ہر ضلع کا الگ الگ بجٹ تیار کیا ہے جس سے شہریوں کو اپنے اپنے ضلع کی معلومات مل سکتی ہیں۔سی پی ڈی آئی کی جانب سے جاری رپورٹ”پاکستان میں بجٹ شفافیت کی صورتحال“ بلاشبہ ایک بہترین کاوش ہے جس میں بجٹ سازی میں پائی جانیوالی خامیوں کی نہ صرف نشاندہی کی گئی ہے بلکہ اس میں بہتری کیلئے تجاویز بھی موجود ہیں۔ثانیہ کامران نے سی پی ڈی آئی سے کہا کہ وہ نوجوان اراکین اسمبلی کیلئے تربیتی سیشنز کا اہتمام کریں تاکہ بجٹ سازی میں انکی شمولیت بہتر ہو سکے۔تقریب سے گفتگو کرتے ہوئے سی پی ڈی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مختار احمد علی نے کہا کہ سی پی ڈی آئی نے ہمیشہ عوامی نوعیت کے مسائل کو اجاگر کیا ہے اورہمیشہ بجٹ میں شفافیت کے لئے کوشاں رہی ہے۔ یہ رپورٹ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ یہ جان سکیں کہ ان کا پیسہ کہاں کہاں استعمال ہو رہا ہے اور ان کی فلاح کی خاطر کونسے منصوبے رکھے گئے ہیں۔پاکستان میں مختلف محکموں میں اب بھی کسی خفیہ دستاویز کی طرح بجٹ کو عوام سے دور کھا جا رہاہے۔انہوں نے بجٹ دستاویزات کوڈیجیٹلائزکرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اسے پیپر فری بنانے کا بھی مطالبہ کیا۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے چیف انفارمیشن کمشنر پنجاب محبوب قادر شاہ نے کہا کہ پنجاب انفارمیشن کمیشن ہر سطح پر معلومات تک رسائی کے قوانین کے بہتر نفاذ کیلئے سرگرم عمل ہے اس سلسلہ میں مختلف سرکاری و غیر سرکاری اداروں کیساتھ آگاہی سیشنز کا انعقاد کیا جارہا ہے۔سرکاری ادارے بلاشبہ عوام بلاشبہ معلومات فرام کرنے میں لیت و لعل سے کام لیتے ہیں جو کہ ایک المیہ ہے تاہم میں امید کرتا ہوں کہ اس حوالہ سے آنیوالا وقت بہتر ہوگا لیکن اس میں سرکاری اداروں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ معلومات کی از خود فراہمی یقینی بنائیں۔ڈپٹی سیکرٹری(فنانس)محمد عارف خان نے اپنی گفتگو میں سی پی ڈی آئی کی جانب سے بجٹ شفافیت پر جاری رپورٹ کو ایک بہترین کاوش قرار دیا اور کہا کہ محکمہ فنانس اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے ہر ممکن کوشش میں ہے کہ زیادہ سے زیادہ معلومات ویب سائٹس کے ذریعے لوگوں تک پہنچائی جائیں۔ یہ سچ ہے کہ بیوروکریسی بجٹ سازی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے تاہم عوامی نمائندوں کو بھی اس میں اپنا کردار نبھانا چاہیے تاکہ اس عمل میں تمام شراکت داروں کی شمولیت بہتر بنائی جاسکے۔سینئر چیف(ایجوکیشن)پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ پنجاب بابر رزاق نے اپنی گفتگو میں شرکا کی جانب سے اٹھائے گئے مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ سرکاری ادارے تو احکامات کے پابند ہوتے ہیں اور مالی سال کے دوران بجٹ میں ہونیوالی مختلف تبدیلیاں کابینہ کی منظوری کے بعد کی جاتی ہیں جنہیں بعدازاں اسمبلی میں پیش کیا جاتا ہے ہم اتنے بااختیار نہیں ہیں کہ از خود بجٹ کو تبدیل کر سکیں۔قبل ازیں ڈائریکٹر بجٹ سٹڈی سنٹر(سی پی ڈی آئی) عامر اعجاز نے ”پاکستان میں بجٹ شفافیت کی صورتحال“ پر مبنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بجٹ سازی میں پائی جانیوالی خامیوں کی نشاندہی کی او ربتایا کہ بجٹ سازی میں شہریوں کی شمولیت،مقننہ کی نگرانی،پارلیمنٹ میں بحث کا دورانیہ اورمساوی بجٹ سمیت دیگر اہم ترین اقدامات توجہ طلب ہیں اور اس سلسلہ میں حکومت کو فوری اور دوررس اقدامات کرنا ہوں گے۔علاوہ ازیں کسی بھی حکومت کی جانب سے سہ ماہی،ششماہی یا سالانہ رپورٹس کے اجراء کا کوئی طریقہ کار رائج نہیں ہے جبکہ آڈٹ رپورٹس بھی آڈیٹر جنرل کی ویب سائٹس پر باقاعدگی سے اپ لوڈ نہیں کی جاتیں۔ حکومتیں نظر ثانی شدہ تخمینہ جات کے اعدادوشمار بروقت فرام نہیں کرتیں بلکہ بجٹ کی منظوری کے دوران ہی پیش کردیے جاتے ہیں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں معلومات تک رسائی کے قوانین پرعملدرآمد کو یقینی بنائیں، بجٹ پر بحث اور منظوری کے دورانیہ کو بڑھا یا جائے متعلقہ سٹیک ہولڈرز خصوصاً شہریوں سے مشاورت کو قانونی تحفظ دیا جائے اور زیادہ سے زیادہ معلومات کی فراہمی پر مبنی ایک شفاف اور اوپن بجٹ پالیسی وضع کی جانی چاہیے۔تقریب سے پنجاب بھر سے سی این بی اے کی ممبر تنظیموں کے نمائندوں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سمیت صحافیوں نے بھی شرکت کی۔