ریاض : سعودی عرب نے ڈنمارک سے قرآن پاک کی بے حرمتی کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کا مطالبہ کردیا۔ سعودی میڈیا کے مطابق سعودی عرب کے وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے ڈنمارک کے ہم منصب لارس لوکے راسموسن سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب ایسے واقعات کو مسترد کرتا ہے۔بتایا گیا ہے کہ اس دوران انہوں نے ڈنمارک پر زور دیا کہ وہ اس طرح کی انتہاپسندانہ کارروائیوں کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے، انتہاپسندوں نے نفرت کو ہوا دینے کے لیے اظہار رائے کی آزادی کا غلط استعمال کیا ہے، ایسی اشتعال انگیز کارروائیوں دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ انتہا پسند نا صرف دین اسلام پر تنقید کرنا چاہتے ہیں بلکہ مسلمانوں کو مشتعل بھی کرنا چاہتے ہیں، اس طرح کی کارروائیوں سے فائدہ اٹھانے والے صرف انتہاپسند ہیں۔اس موقع پر ڈنمارک کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ڈنمارک پہلے ہی اس طرح کی کارروائیوں کی مذمت کرچکا ہے۔ اسی طرح اسلامی ممالک نے قرآن پاک کی بے حرمتی پر اقوام متحدہ کی خاموشی افسوسناک قرار دی ہے، جنیوا میں اسلامی تعاون تنظیم کے گروپ نے بعض یورپی ممالک میں بار بار قرا?ن پاک کی بے حرمتی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے متعلقہ ماہرین کی طرف سے ایسے واقعات پر خاموشی افسوس ناک ہے، ہم متعلقہ حکومتوں کی جانب سے ایسے واقعات کی مذمت کو تسلیم کرتے ہیں لیکن اس بات پر تشویش ہے کہ انتہا پسند ایسے ممالک میں انتہائی ضروری حفاظتی، قانونی اور انتظامی پالیسی کی عدم موجودگی میں استحصال جاری رکھ سکتے ہیں۔او آئی سی گروپ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ کچھ واقعات کے پیچھے نسلی مقاصد کو واضح طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے، بعض ریاستوں میں پہلے اس طرح کی کارروائیوں کی منظوری دینے اور پھر اس کی مذمت کرنے میں سیاسی سطح پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے، افراد اور کمیونٹیز کو مذہبی منافرت، دشمنی اور قرآن پاک یا دیگر مقدس کتابوں کی بے حرمتی اور تشدد کو بڑھا نے سے بچانے کے لیے اس طرح کے واقعات کی روک تھام اور جوابدہی کی ضرورت ہے۔گروپ کی جانب سے یاد دہانی کرائی گئی کہ مذہبی منافرت کی روک تھام کے لیے حال ہی میں انسانی حقوق کونسل میں قرارداد منظور کی گئی جس میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات کی مذمت کی گئی اور مذہبی منافرت اور تشدد کو اکسانے کی روک تھام کے لیے احتساب کا مطالبہ کیا گیا، قرارداد میں ہائی کمشنر اور انسانی حقوق کے اداروں پر زور دیا گیا کہ وہ ایسے واقعات کو روکیں، تاہم ایسے واقعات پر اقوام متحدہ کے متعلقہ ماہرین کی خاموشی افسوس ناک ہے، ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ذاتی علمی نظریات کو کسی کو بھی اپنی اخلاقی اور قانونی ذمہ داریوں سے نہیں روکنا چاہیے جیسا کہ ان کے متعلقہ مینڈیٹ میں بیان کیا گیا ہے۔او آئی سی گروپ نے کہا کہ ہم اس نظریے کو مسترد کرتے ہیں کہ قرآن پاک کی سرعام اور طے شدہ منصوبے کے تحت بے حرمتی قابل اعتراض ہے لیکن قانونی طور پر قابل اجازت فعل ہے، اس کے برعکس یہ بین الاقوامی قانون کے تحت قابل مذمت اور ممنوعہ فعل ہے کیوں کہ یہ مذہبی منافرت، دشمنی اور تشدد کو بڑھاوا دیتا ہے، انسانی حقوق کونسل ذاتی علمی نظریات کو کالعدم قرار دیتی ہے خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو کونسل کے سامنے جوابدہ ہیں اور اس حوالے سے اپنے مینڈیٹ کے پابند ہیں۔
