از قلم
نعیم بخش تارڑ
اسسٹنٹ ڈائریکٹر لینڈ ریکارڈ
وہ آفس میں بیٹھا معمول کے مطابق اپنے کام میں مصروف تھا۔اپنے اسسٹنٹ سے بولا اس فائل میں پیسے وصول ھو گئے ہیں تو میں اس کو کلیئر کر دوں۔میں یہ سن کر چونکا، سر اس میں بہت مسائل ہیں یہ مکمل غیر قانونی کام ہے۔ اس کو ہم کیسے کلئیر کر سکتے ہیں۔ صاحب بولے چپ کر اوپر سے حکم آیا ہے کہ کچھ لے دے کر اس کو کلیئر کرو اور ہمیں ہمارا حصہ پہنچاؤ۔ اب تم سوچو میں اس کرپٹ نظام میں اکیلا کیا کر سکتا ہوں۔نیچے سے اوپر تک سب کرپٹ ہیں۔میں بھی اس نظام کا حصہ بن گیا ہوں۔میرے بدلنے سے کیا ھو گا۔ یہ نظام بدلے گا تو میں بدلو گا۔میرا تحصیل ہیڈ منتھلی لیتا ہے اور اوپر ڈسٹرکٹ ہیڈ کو بھی پہنچاتا ہے۔آِئے روز اوپر سے بڑے افسران کی فرمائشیں آتی ہیں وہ کہاں سے پوری کریں۔ پیسے لیں گے نہیں تو اوپر کیسے دیں گے۔ گھر کی ضرورتیں، بچوں کی پڑھائی،ان کی فیس، بیماری بھی آتی ہے، یہ سب تنخواہ میں ممکن نہ ہے۔اس کے ماتھے پر بل بڑتے جا رہے تھے اور غصہ سے لال پیلے ہو کر ساری ذمےداری اس نظام پر ڈال کر دل کو تسلی دے کر ایک گلاس پانی پی کر ٹھنڈے ھو چکے تھے اور اگلی فائل پر لالچی نظروں سے گھور رہے تھے تو میں بولا کہ سر میں کچھ گزارش کرنا چاہتا ہے کہتے بولیں ۔ میں نے کہا کہ آخر کب تک ہم اپنا قصور نظام پے ڈال کر اس نظام میں خود کو بری الذمہ سمجھتے رہیں گے۔جب تک میں اور آپ نہیں بدلے گئے تو یہ نظام کیسے بدلے گا۔سر میرےاور آپ سے ہی تو یہ نظام کھڑا ہے۔ ہم نکل جائیں تو کرپشن کی یہ کڑی ٹوٹ جائے گی۔ اور اگر یہ کڑی ٹوٹ گئی تو یہ پوری چین ناکارہ ہو جائے گی۔
سر یہ زندگی اللہ کی دی ہوئی ہے۔ وہ جو نو ماہ ماں کے پیٹ کے اندر بھی خالص رزق پہنچاتا ہے۔ پھر اس نے اس وقت تک رزق دیا جب تک ہمیں ڈائریکٹ روزی روٹی کا ذریعہ یہ نوکری نہیں دے دی۔وہ زات جس نے آج تک بھوکے سونے نہیں دیا ۔کیا اگے وہ ہمیں یوں بے آسرا چھوڑ دے گی ۔ ہمیں اپنے مسئلے مسائل اسی پر چھوڑ دینے چاہئیں وہ خود ہی حل نکال دیتا ھے۔
سر نے اپنے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی فائل ٹیبل پر رکھ دی اپنی عینک اتار کر میری طرف متوجہ ہو گئے۔ میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا کہ سر ہمیں کسی بندے کیلئے نہیں بلکہ اپنے اللہ کیلئے اپنے آپ کو بدلنا ہے۔ ہمیں اس سے غرض نہیں ہونی چاہئے کہ ساتھ والا کرپٹ ہے تو میں کیوں ایماندارانہ روش اختیار کروں۔میرے اوپر والا آفیسر اگر حرام کھاتا ہے تو میرے ایماندار ہونے سے کیا فرق پڑ جائے گا۔ سر یقین مانیں جس دن ہم ان باتوں سے بے نیاز ھو گئے اور اپنے آپ کو خالصتآ اللہ کی رضا کیلئے بدل لیا۔ آفس ٹائم پر آنا تو اللہ کیلئے، کام ایمانداری سے کرنا تو صرف اللہ کیلئے، لوگوں کی مدد کرنی تو اللہ کیلئے، غلط کام کو روکنا تو صرف اللہ کیلئے ،غریب بندے کی ڈیوٹی سے بڑھ کر مدد کرنا وہ بھی صرف اللہ کیلئے تو سر ہماری زندگی سے پچھتاوے ختم ہو جائے گئے۔ہمیں کوئی شاباش دے نہ دے ہمیں فرق نہیں پڑے گا۔کیونکہ ہمارا ہر کام صرف اللہ کی رضا کیلئے ہو گا۔ سر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جس دن ہمیں اللہ نے اپنے راستے میں قبول کر لیا تو اس دن یہ دنیا دار لوگ بھی ہمارے سچ کی گواہی دے گئے۔اور ہمارا اللہ ہماری ضرورتوں کا خود کفیل ہو جائے گا اور وہاں سے رزق دے گا جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب یہ سب کچھ اخلاص کے ساتھ صرف اللہ کیلئے کرے گئے۔ حضرت جنید بغدادی رحمت علیہ فرماتے ھیں کہ میں نے اخلاص ایک حجام سے سیکھا ۔ کہتے میں ایک حجام کی دکان پر گیا۔ بال کٹوانے کیلئے جیب میں پیسے نہیں تھے۔ حجام نے بال بنانے سے انکار کر دیا۔ میں نے کہا اللہ کیلئے کاٹ دو ۔ اس نے سب گاہک نکال دیے مجھے کرسی پر بٹھایا سر کو چوما اور بال بنانے شروع کر دیئے۔ ساتھ ساتھ روتا جاتا اور ساتھ ساتھ بال بناتا جاتا۔ کہتے جب جیب میں پیسے آۓ تو سوچا جا کر اس کو اجرت دے آؤں۔ وہاں گیا کہا پیسے رکھ لو۔ کہتا جناب اتنے بڑے اللہ کے بندے بن گئے ہیں اور یہ بھی نہیں پتہ جو کام اللہ کیلئے کیا جائے اس کی اجرت بندوں سے نہیں لیتے۔
پاس کھڑا نائب قاصد ہاتھ میں پانی کا گلاس پکڑے ساری باتیں سن رہا تھا اس نے پانی کا گلاس سر کے سامنے رکھ اور بولا سر آج میں آپ کو پانی اس وجہ سے نہیں پلا رہا کہ آپ میرے آفسر ہیں بلکے اس پانی کو خالص اللہ کی رضا کیلئے ایک بندے کی پیاس بجھانے کیلئے پیش کر رہا ہوں۔ سر نائب قاصد کی طرف دیکھ کر مسکرانے اور انٹرکام پر کلرک کو کہا جتنی فائلیں پڑی ہیں سب اٹھا کر میرے روم میں آ جاؤ۔ اور کہا آج سے ساری فائلیں قانون کے مطابق اللہ کی رضا کیلئے کلئیر کی جائیں گی۔ فائلیں نکالنا شروع کر دیتے ہیں روتے جاتے ہیں اور سائن کرتے جاتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر میری آنکھیں اشک بار ہوتی ہیں جسم میں ایک جھرجھری سی آتی ہے اور اپنے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی ھدایت سے نوازتا ہے۔اللہ ہم سب کو اپنے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
