‘امریکا نے انجیلا مرکل کی جاسوسی کیلئے ڈینمارک کی انٹرنیٹ کیبل استعمال کی’
کوپن ہیگن: فرانس نے خبردار کیا ہے کہ امریکا کی جانب سے زیر سمندر ڈینش کیبل کا استعمال کر کے یورپی اتحادیوں کی جاسوسی کی تصدیق ہوگئی تو یہ ‘انتہائی سنگین’ ثابت ہوگی۔
ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ کیا ڈنمارک جانتا ہے کہ امریکا کیا کررہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایک تحقیقاتی رپورٹ میں ڈنمارک کے سرکاری ریڈیو اور دیگر یورپی میڈیا آؤٹ لیٹس کا کہنا تھا کہ امریکا کی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) نے جرمنی، سویڈن، ناروے اور فرانس کے سیاست دانوں کی جاسوسی کے لیے سال 2012 سے 2014 تک ڈینمارک کی زیر سمندر انٹرنیٹ کیبلز سے خفیہ طور پر بات چیت سنی۔
ڈنمارک ریڈیو کی رپورٹ میں کہا گیا کہ این ایس اے ٹیسٹ میسیجز، ٹیلیفون کالز، انٹرنیٹ ٹریفک بشمول سرچز، چیٹس اور مسیجنگ سروسز تک رسائی حاصل کرسکتی تھی جس میں جرمن چانسلر انجیلا مرکل، سابق وزیر خارجہ فرینک والٹر اور اس وقت کے اپوزیشن لیڈرپیر اسٹینبرک کی بات چیت بھی شامل تھی۔
فرانس انفو ریڈیو سے بات کرتے ہوئے فرانس کے وزیر یورپ کیلمینٹ بیونے کا کہنا تھا کہ ‘یہ انتہائی سنگین ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا یورپ میں ہمارے پارٹنر، ڈنمارک نے امریکی سروسز کے ساتھ اپنے تعاون میں غلطیاں یا خامیاں کی ہیں؟
وزیر کا کہنا تھا کہ ‘اتحادیوں کے درمیان بھروسہ، کم سے کم تعاون لازمی ہونا چاہیے اس لیے یہ ممکنہ حقائق سنگین ہیں’۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان حقائق کی پہلی تصدیق لازمی ہے اور اس کے بعد تعاون کے حوالے سے کسی نتیجے پر پہنچا جائے گا، ڈنمارک کے ہمسایہ ممالک سے بھی وضاحت کا مطالبہ کیا ہے۔
ناروے کے وزیراعظم نے اس حوالے سے کہا کہ یہ ناقابلِ قبول ہے کہ اگر وہ ممالک جو قریبی اتحادی ہوں وہ ایک دوسرے کی جاسوسی کی ضرورت محسوس کریں ساتھ ہی ڈنمارک سے وہ تمام معلومات فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کیا جو اس کے پاس ہے۔
سویڈن کے وزیر دفاع نے کہا کہ وہ یہ پوچھنے کے لیے کہ کیا ڈینمارک کے پلیٹ فارمز سویڈش سیاستدانوں کی جاسوسی کے لیے بھی استعمال کیے گئے؟ ڈنمارک کے وزیر دفاع کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
دوسری جانب جرمن حکومت کے ترجمان نے کہا کہ وہ اس حوالے سے وضاحت لینے کے لیے تمام متعلقہ ملکی اور بین الاقوامی بات چیت کرنے والوں سے رابطے میں ہیں۔
ڈنمارک ریڈیو کا کہنا تھا کہ این ایس اے نے خفیہ طور پر بات چیت سننے کے لیے ڈنمارک کی فوج کے ایف ای یونٹ کے ساتھ نگرانی کے تعاون کا فائدہ اٹھایا۔
تاہم یہ بات غیر واضح ہے کہ کیا ڈینمارک کو اس وقت اس بات کا علم تھا کہ امریکا، اس کے ہمسایہ ممالک کی جاسوسی کے لیے اسی کی کیبلز کا استعمال کررہا ہے۔
دوسری جانب ڈینمارک کے وزیر دفاع نے ڈی آر کی رپورٹ کی نہ ہی تصدیق اور نہ ہی تردید کی، البتہ یہ ضرور کہا کہ قریبی اتحادیوں کی جانب سے خفیہ طور پر بات چیت سننے کا عمل ناقابلِ قبول ہے۔
خیال رہے کہ امریکا کی جانب سے یورپی رہنماؤں کی خفیہ طور پر بات چیت سننے کا عمل نیا نہیں ہے۔