سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل
اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 سے متعلق کیس کی سماعت کے موقع پر ایکٹ کی تیاری سے متعلق تمام پارلیمانی کارروائی، قائمہ کمیٹی میں ہونے والی بحث کے ریکارڈ سمیت فریقین سے تحریری دلائل طلب کرتے ہوئے معاملہ کی سماعت سوموار آٹھ مئی تک کیلئے ملتوی کر دی ہے۔ عدالت عظمی نے اس موقع پر پاکستان بار کونسل کی معاملہ کی سماعت کیلئے فل کورٹ بنانے اور جسٹس مظاہر علی نقوی کو بنچ سے ہٹانے کی استدعا مسترد قرار دے دی ہے۔ منگل کو عدالت عظمی میں معاملہ کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں آٹھ رکنی لارجر بنچ نے کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ جمہوریت آئین کے اہم خدوخال میں سے ہے،آزاد عدلیہ اور وفاق بھی آئین کے اہم خدوخال میں سے ہے،دیکھنا ہے کہ کیا عدلیہ کا جزو تبدیل ہوسکتا ہے؟عدلیہ کہ آزادی بنیادی حق ہے،عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے یہ مقدمہ منفرد نوعیت کا ہے،مقدمے پر فریقین کے سنجیدہ بحث کی توقع ہے،لارجر بنج کو بہترین معاونت فراہم کرنی ہو گی ، پاکستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا قانون ہے ،ریاست کے تیسرے ستون کے بارے میں یہ قانون ہے، قانون سازی کے اختیار سے متعلق وفاقی قانونی سازی فہرست کی کچھ حدود و قیود بھی ہیں،فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے سیکشن 55 بھی جائزہ لینا ہو گا،یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی کہ آذاد عدلیہ آئین کا بنیادی جزو ہے،الزام ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئین کے بنیادی جزو کی قانون سازی کے ذریعے خلاف ورزی کی گئی۔مسلم لیگ ن کی جانب سے بیرسٹر صلاح الدین، پیپلز پارٹی کی طرف سے فاروق ایچ نائیک جبکہ پاکستان بار کونسل کی جانب سے حسن رضا پاشا عدالت میں پیش ہوئے۔کارروائی کے آغاز میں ایڈووکیٹ طارق رحیم نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی اصلاحات بل قانون کا حصہ بن چکا ہے، پاکستان بار کونسل کے وکیل حسن رضا پاشا نے عدالت کے روبرو موقف اپنایا کہ پاکستان بار نے ہمیشہ ٓائین اور عدلیہ کیلئے لڑائی لڑی ہے،مناسب ہوگا اگر اس مقدمے میں فل کورٹ تشکیل دیا جائے،بینچ میں سات سینیئر ترین ججز شامل ہوں تو کوئی اعتراض نہیں کرسکے گا،بینچ کے ایک رکن کے خلاف چھ ریفرنس دائر کیے ہوئے ہیں۔انہوں نے اس موقع پر جسٹس مظاہر علی نقوی کو بنچ سے الگ کرنے کی بھی استدعا کی۔اٹارنی جنرل آف پاکستان نے بھی اس موقع پر عدالت عظمی سے حکم امنتاع دینے کی استدعا کرتے ہوئے عدالت سے بنچ بڑھانے پر غور کرنے کی درخواست کی۔چیف جسٹس آف پاکستان نے اس موقع پر پاکستان بار کونسل کے کونسل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پاشا صاحب آپ نفیس آدمی ہیں،اپنے راد گرد سے معلوم کرائیں آپ کے لوگ کس کو فل کورٹ کہتے ہیں،سپریم کورٹ بار نے ادارے کا تحفظ کرنا ہے،ججز نے آنا ہے اور چلے جانا ہے،پہلے سمجھا تو دیں کہ قانون کیا ہے اور کیوں بنا؟پنچ کی تعداد کم بھی کی جا سکتی ہے،ججز اور عدلیہ کو احترام نہ دیا گیا تو انصاف کا مطالبہ نہیں ہوگا،اگر سپریم کورٹ کے ججز کا احترام نہ کیا گیا تو پھر یہ انصاف کا مطالبہ نہیں ہوگا،سیاسی جماعتیں من پسند فیصلوں کیلئے پک اینڈ چوز چاہتی ہیں۔پاکستان بار کونسل کے وکیل حسن رضا پاشا نے اس موقع پر موقف اپنایا کہ انہوں نے وکلا کے تحفظات سے عدالت کو آگاہ کیا ہے،عدالت کو کوئی بات ناگوار گزری ہے تو وہ معذرت خواہ ہیں۔عدالت عظمی نے اس موقع پر ایکٹ سے متعلق پارلیمانی کارروائی اور قائمہ کمیٹی میں ہونے والی بحث کو ریکارڈ طلب کرتے ہوئے معاملہ کی سماعت آٹھ مئی تک کیلئے ملتوی کر دی ہے۔ عدالت عظمی نے سیاسی جماعتوں اور وکلاء تنظیموں سے معاملہ پر تحریری دلائل بھی طلب کئے ہیں۔