بھارت کا علاقائی سپرپاور بننے کا خواب چکنا چور
(وقت نیوز آن لائن)
’’اگر آپ اپنے دشمن اور اپنے آپ کو اچھی طرح جانتے ہیں، تو چاہے سو جنگیں لڑئیے، آپ کو نتیجے سے کوئی ڈر نہیں لگے گا۔
’’اگر آپ اپنے آپ کو تو جانتے ہیں مگر دشمن کو نہیں تو پھر ہر فتح کے ساتھ ساتھ آپ کو شکست بھی ملے گی۔
’’اگر آپ اپنے دشمن کو نہیں جانتے اور نہ ہی اپنی صلاحیتوں کا ادراک رکھتے ہیں تو ہر جنگ میں شکست کھانے کے لیے تیار رہیے۔‘‘(چینی ماہر عسکریات،ماسٹر سن ژی)
یہ ستمبر 2018ء کی بات ہے، بھارتی بری فوج کے آٹھ سینئر ترین جرنیلوں کو اپنے آرمی چیف،بپن روات کا ایک اہم پیغام ملا۔ پیغام میں درج تھا کہ آرمی کمانڈرز کانفرنس اکتوبر کے بجائے اسی ماہ منعقد ہوگی۔ یہ پیغام پڑھ کر بھارتی جرنیل سمجھ گئے کہ یقیناً کوئی خاص بات ہے، تبھی کانفرنس ایک ماہ قبل بلالی گئی۔ یہ کانفرنس سال میں دو مرتبہ منعقد ہوتی ہے۔ آرمی چیف کی سربراہی میں آٹھ سینئر ترین جرنیل اس میں شرکت کرتے ہیں۔ یہ فیصلہ سازی کرنے اور پالیسیاں بنانے والا بھارتی فوج کا ایلیٹ ترین ادارہ ہے۔
جرنیلوں کی سوچ درست ثابت ہوئی۔ ماہ ستمبر کی آرمی کمانڈرز کانفرنس میں بھارتی آرمڈ فورسز کی نئی ملٹری ڈاکٹرائن پیش کردیا گیا۔ گو یہ بنیادی طور پر بری فوج سے تعلق رکھتا ہے مگر اس میں بھارتی فضائیہ اور بحریہ کے بعض عنصر بھی شامل ہیں۔ یہ نئی ملٹری ڈاکٹرائن تین نکات سامنے رکھ کر تیار کیا گیا:
(1) بھارتی افواج کی اہلیت و صلاحیت میں اضافہ تاکہ مستقبل میں بہترین طریقے سے جنگیں لڑی جاسکیں۔
(2) سپاہیوں کی استعداد کار میں اضافہ اور انہیں زیادہ موثر بنانا۔
(3) اخراجات میں کمی کرنا۔
بھارتی عسکری ڈاکٹرائن
ماضی کے زیرک جرنیلوں کا قول ہے کہ اس بات پر مطمئن و پرسکون مت ہوئیے کہ دشمن آپ پر حملہ نہیں کررہا بلکہ اپنی عسکری تیاریاں پوری قوت سے جاری رکھیے تاکہ دشمن کو بھر پور جواب دے سکیں۔ اس قول کی رو سے افواج پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ حریف پڑوسی کی عسکری پالیسیوں پر نظر رکھیں۔
بھارت کے حکمران طبقے نے روز اول سے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا۔ وجہ یہ کہ وہ پاکستان کو ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کا حصّہ سمجھتا ہے۔ بھارتی قوم پرستوں کے اقتدار میں آجانے سے پاکستان کے خلاف ان کی جارحیت بڑھ گئی ۔ اس صورت حال میں ضروری ہے کہ پاکستان کا دفاع مضبوط سے مضبوط تر بنایا جائے تاکہ حریف کو حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوسکے۔ دفاع مستحکم کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ بھارتی آرمڈ فورسز کی پالیسیوں اور حکمت عملی پر گہری نظر رکھی جائے۔بھارتی بری فوج کی ملٹری ڈاکٹرائن کئی تبدیلیوں سے گزرا ہے۔ طویل عرصے تک اس کا مرکزی نکتہ دفاعی جنگ لڑنا رہا ہے۔ 1971ء کی جنگ کے بعد بری فوج کو عموماً دو حصوں ’’دفاعی‘‘ (Holding) اور ’’جارح‘‘ (Strike) میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ دفاعی فوج کے دستے (ڈویژن) پاکستان اور چین کی سرحدوں کے قریب رکھے گئے۔ جارح فوج کے دستوں کو وسطی بھارت میں رکھا گیا۔یہ حکمت عملی عسکری اصطلاح میں ’’سندرجی ڈاکٹرائن‘‘ کہلاتا ہے کیونکہ اس کی تشکیل میں سابق آرمی چیف کرشنا سوامی سندرجی(1986ء تا 1988ء) نے اہم کردار ادا کیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ پہلے دفاعی بھارتی فوج حریف کے حملے کو روک لے۔ پھر جارح فوجی دستے حریف پر جوابی وار کردیں۔ یہ دستے ٹینکوں اور توپوں سے لیس تھے۔ انہیں بھارتی فضائیہ کی بھی بھرپور مدد حاصل تھی۔
دسمبر 2001ء میں کشمیری مجاہدین نے بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کردیا۔ حسب روایت بھارتی حکومت نے اس کا ذمے دار پاکستان کو قرار دیا اور ارض پاک پر حملے کی تیاری شروع کردی۔ جنگی تیاریوں کو ’’آپریشن پرکرم‘‘ کا نام دیا گیا۔ مدعا یہ تھا کہ جارح بھارتی فوج سے پاکستان پر حملہ کردیا جائے۔ یہ تین کور (نو ڈویژن) فوج پر مشتمل تھی۔ یہ تین کور تقریباً ایک لاکھ فوجی رکھتی تھیں۔لیکن جارح بھارتی فوج کو سرحد تک پہنچنے میں تین ہفتے لگ گئے۔ اس دوران پاک بھارت کشیدگی میں پہلے جیسی تندی و گرمی نہیں رہی۔ عالمی قوتوں کی سفارت کاری کے باعث بھی حالات معمول پر آگئے۔ یوں بھارتی حکمران طبقہ پاکستان کو سبق سکھانے کے اپنے منصوبے پر عملدرآمد نہیں کرسکا۔ پاکستانی سرحد کے قریب موجود بھارتی دفاعی دستے ایسا جنگی سازوسامان نہیں رکھتے تھے کہ وہ پاکستان پر حملہ کرسکیں۔ اگر ان کے ذریعے حملہ کیا جاتا ، تو افواج پاکستان انہیں ملیامیٹ کرسکتی تھیں۔اس تجربے کے بعد بھارتی مسلح افواج کے جرنیلوں اور حکمران طبقے کو احساس ہوا کہ ’’سندرجی ڈاکٹرائن‘‘ پاکستان کے معاملے میں قابل عمل نہیں۔
اسی لیے نئی عسکری حکمت عملی کے تحت ایسی سریع الحرکت فوج بنانے کا فیصلہ ہوا جو تیزی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ پاکستانی علاقوں پر قبضہ کرسکے۔ بھارتی عسکری و سیاسی قیادت کا خیال ہے کہ اس حکمت عملی سے افواج پاکستان اور پاکستانی حکومت کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا جاسکے گا۔ عسکری اصطلاح میں حکمت عملی ’’کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن‘‘ (Cold Start doctrine)کے نام سے مشہور ہوئی۔بھارتی فوج کا طویل عرصہ یہ بیان رہا کہ کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن کوئی وجود نہیں رکھتا۔ آخر دو سال قبل موجودہ آرمی چیف، جنرل بپن روات نے اس کی موجودگی تسلیم کرلی۔ اس دوران پاکستانی فوج نے حریف کی سریع الحرکت آرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے تدبیراتی ایٹمی میزائل ’’نصر‘‘ تیار کرلیا۔ اس ایٹمی میزائل کے ذریعے وسیع رقبے پر پھیلی اور حملہ کرتی فوج کو تباہ و برباد کرنا ممکن ہے۔
مالی دبائو کا سامنا
ستمبر 2018ء میں بھارتی افواج کا جو نیا ملٹری ڈاکٹرائن سامنے آیا، وہ کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن ہی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ دلچسپ بات مگر یہ کہ اسے بالکل مختلف وجہ کی بنا پر اپنایا گیا۔ اگرچہ سریع الحرکت فوج تشکیل دینا بھی اس نئی عسکری حکمت عملی کا اہم وصف ہے۔ تاہم بنیادی طور پر بھارتی افواج کو مالی دبائو سے چھٹکارا پانے کی خاطر یہ نیاڈاکٹرائن سامنے لانا پڑا۔
فروری 2019ء میں بھارتی حکومت نے نیا بجٹ پیش کیا، تو اس میں دفاع کے لیے چار کھرب اکتیس ارب روپے رکھے گئے۔ یوں بھارت امریکا، چین اور روس کے بعد سب سے بڑا دفاعی بجٹ رکھنے والا ملک بن گیا۔ جنگجوئی سے شغف رکھنے والے بھارتی یقیناً اس بات پر غرور کریں گے لیکن پس پردہ تلخ حقائق سے صرف بھارتی افواج ہی واقف ہیں۔دراصل اس بھاری بھرکم بجٹ کا ’’87 فیصد‘‘ حصہ فوجیوں اور سویلین کی تنخواہوں، دیگر روزمرہ اخراجات، پنشن، ایندھن کی خریداری اور گولہ بارود خریدنے پر صرف ہوجاتا ہے۔ چنانچہ نئے جہاز، ٹینک، توپیں اور دیگر ہتھیار خریدنے کے لیے صرف ’’13 فیصد‘‘ رقم ہی بچتی ہے۔رقم کی کمی کے باعث ہی پچھلے کئی برس سے بھارتی افواج جدید ہتھیار نہیں خرید سکیں۔امریکی اخبار،نیویارک ٹائمز کی ایک حالیہ رپورٹ نے انکشاف کیا کہ بھارتی افواج کے ’’68 فیصد ہتھیار‘‘ فرسودہ اور قدیم ہیں۔ ’’24 فیصد‘‘ ہتھیار جدید ٹیکنالوجی کے حامل جبکہ صرف ’’8 فیصد‘‘ ہتھیار جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کیے گئے ہیں۔ اس رپورٹ سے عیاں ہے کہ اگر آج بھارتی افواج کی چین یا پاکستان سے جنگ چھڑ جائے تو اس مقابلے میں فرسودہ ہتھیاروں کے باعث اسے شکست ہوسکتی ہے۔
یہ واضح رہے کہ افواج پاکستان بھی مالی دبائو کا شکار ہیں۔ پچھلے سال کے بجٹ میں انہیں ایک کھرب تین سو ساٹھ ارب روپے ملے تھے۔ مگر ان میں سے صرف 282 ارب روپے ہتھیاروں اور اسلحے کی خریداری کے لیے تھے۔ بقیہ رقم تنخواہوں، پنشن، روزمرہ اخراجات، عمارتوں کی تعمیر و مرمت وغیرہ کے لیے مخصوص کرنا پڑی۔ ہتھیار خریدنے کے معاملے پر لیکن دونوں ممالک کا موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی عسکری و سیاسی قیادت اپنی حریف بھارتی قیادت سے مقابلتاً زیادہ ذہین و دانشمند ہے۔ وجہ یہ کہ حالیہ بھارتی دفاعی بجٹ میں بھی تقریباً 282 ارب روپے ہی نئے ہتھیار خریدنے کے لیے مختص کیے گئے حالانکہ بھارت کا مجموعی دفاعی بجٹ پاکستان کے مقابلے میں چار گنا بڑا ہے۔ اس موازنے سے عیاں ہے کہ چھوٹا ملک ہونے اور کمزور معیشت رکھنے کے باوجود ہتھیار خریدنے کے معاملے میں پاکستان اپنے دیرینہ حریف کو بھرپور جواب دے رہا ہے۔
بھارتی مسلح افواج مگر یہ دیکھ کر تلملا رہی ہیں کہ دفاعی بجٹ کا بیشتر حصہ غیر عسکری سرگرمیوں پر خرچ ہوجاتا ہے۔ چونکہ بھارتی بری فوج ہی دفاعی بجٹ سے سب سے زیادہ رقم لیتی ہے، اسی لیے وہ نیا ملٹری ڈاکٹرائن سامنے لے آئی۔ اس ڈاکٹرائن کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ بھارتی فوج کو چھوٹے عسکری یونٹوں میں تقسیم کردیا جائے جنہیں ’’اینٹیگریٹڈ بیٹل گروپس‘‘ (Integrated Battle Groups) کا نام دیا گیا۔
بھارت کی بری فوج اکیس لاکھ ستانوے ہزار سپاہ پر مشتمل ہے۔ ان میں سے بارہ لاکھ پینتیس ہزار تو حاضر یا ایکٹو فوجی ہیں۔ نو لاکھ ساٹھ ہزار فوجی محفوظ یا ریزرو فوج کا حصہ ہیں۔ ہر روایتی فوج کے مانند انہیں بھی کور، ڈویژن، بریگیڈ، بٹالین اور کمپنیوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ایک کور دو یا تین ڈویژن رکھتی ہے۔ ہر ڈویژن میں 15 ہزار سے زائد فوجی شامل ہوتے ہیں۔ ایک ڈویژن دو تین بریگیڈ رکھتا ہے اور ایک بریگیڈ میں تین بٹالین ہوتی ہیں۔ بھارتی فوج کی پندرہ کور ہیں۔ پاک بری فوج نو رکھتی ہے۔ ایک کور میں انفنٹری، میکنائزڈ (ٹینک)، آرٹلری (توپ خانہ) یا آرمرڈ (بکتر بند گاڑیاں) ڈویژن ہوتے ہیں۔ بعض مخصوص کور بھی ہوتی ہیں جیسے پاک فوج کی ’’آرمی اسٹرٹیجک فورسز کمانڈ کور‘‘ دو آرٹلری ڈویژن پر مشتمل ہے۔
فوج کی نئی صف بندی
بھارتی بری فوج کی قیادت اب تین چار اسٹرائکس یا جارح کور کے علاوہ بقیہ کور کو اینٹیگریٹڈ بیٹل گروپس میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ ان عسکری گروپس کی دو بنیادی اقسام ہوں گی… میدانی اور پہاڑی۔میدانی جنگ لڑنے میں طاق اینٹیگریٹڈ گروپس پاکستان کی سرحد کے قریب رکھے جائیں گے۔ یہ گروپس ایسا اسلحہ اور دیگر عسکری سازوسامان رکھیں گے جو میدانی علاقوں میں جنگ لڑنے کے کام آسکیں۔ جبکہ پہاڑوں میں جنگ لڑنے کے قابل اینٹیگریٹڈ گروپس چین کی سرحد پر تعینات ہوں گے۔ البتہ بعض گروپس کشمیر میں بھی رکھے جانے کا امکان ہے کہ وہ بھی پہاڑی علاقہ ہے۔ایک اینٹیگریٹڈ گروپ چھ سات بٹالین پر مشتمل ہوگا۔ گویا اس میں تقریباً چھ ہزار فوجی شامل ہوں گے۔ یہ گروپ اپنی جگہ ایک مکمل چھوٹی فوج ہوگا۔ یعنی اسے وہ تمام ہتھیار اور سازوسامان میسر آئے گا جو لڑنے کی خاطر فوج کو درکار ہوتا ہے۔ چناں چہ بھارتی اینٹی گریٹڈ گروپ کے بنیادی اجزا یا حصے یہ ہوں گے:٭پیدل فوج٭ ٹینک٭ توپیں٭ طیارہ شکن توپیں٭ زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل٭ بکتر بند گاڑیاں٭ ہیلی کاپٹر٭ انجینئر اور الیکٹرونک آلات چلانے والے ماہرین۔ اس گروپ کی کمان ایک میجر جنرل کرے گا۔
بھارتی بری فوج کے تمام اینٹیگریٹڈ گروپس کی نئی کور تشکیل دی جائیں گی۔ ہر کور کی کمان لیفٹیننٹ جنرل کرے گا۔ ہر گروپ کے سربراہ اسی لیفٹیننٹ جنرل سے ہدایات لیں گے۔ ایک کور میں تین یا چار اینٹی گریٹڈ گروپس شامل ہوسکتے ہیں۔درج بالا حقائق سے آشکارا ہے کہ بھارتی بری فوج نئے سرے سے اپنی صف بندی کررہی ہے۔ یہ اقدام کرکے وہ مختلف مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔تاہم بنیادی مقصد یہ ہے کہ سپاہ کی تعداد کم ہوسکے تاکہ اخراجات میں بچت ہو۔ بھارتی جرنیلوں کو یقین ہے کہ اینٹیگریٹڈ گروپس کی تشکیل سے ایک تا ڈیڑھ لاکھ فوجی کم ہوجائیں گے۔ خیال ہے کہ اس طرح بھارتی فوج کو ہر سال ستر ارب روپے کی بچت ہو گی۔
بھارت کے ماہرین عسکریات کا کہنا ہے کہ آزادی کے بعد پہلی بار بھارتی بری فوج اتنے وسیع پیمانے پر تبدیلیوں کے عمل سے گزرے گی۔ تاہم یہ عمل خاصا طویل ہے اور چند برسوں میں مرحلہ وار مکمل ہوگا۔ اس عمل کا آغاز 2016ء میں ہوا تھا جب مودی حکومت نے لیفٹیننٹ جنرل (ر) ڈی بی شیکھتر کی زیر قیادت جرنیلوں کی ایک کمیٹی بنائی۔ اس کمیٹی نے بھارتی آرمڈ فورسز کے اخراجات کم کرنے کی خاطر تجاویز دینی تھی۔لیفٹیننٹ جنرل (ر) شیکھتر ایک تجربے کار جرنیل ہے۔ وہ اس نظریے کا حامی ہے کہ ایک فوج کو ضرورت سے زیادہ بڑا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ محض عددی برتری کی بنا پر جنگ نہیں جیت سکتی۔ ایک فوج کی بنیادی ضرورت یہ ہے کہ وہ جدید ترین اسلحے سے لیس اور چست و چالاک فوجیوں پر مشتمل ہو۔ وہ وقت پڑنے پر تیزی سے جنگ کے لیے تیار ہوسکے۔ شیکھتر کمیٹی نے اواخر 2017ء میں مختلف تجاویز دیں جن میں سے بیشتر مودی حکومت نے منظور کرلیں۔
ایک تجویز یہ تھی کہ 57 ہزار فوجی افسروں اور جوانوں کو نئی ذمے داریاں تفویض کی جائیں۔ اس تجویز پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے۔ بھارتی فوج نے گوہاٹی (آسام) اور ادھم پور (جموں وکشمیر) میں دو ورکشاپ بنا رکھی تھیں جہاں افسروں اور جوانوں کو لیکچر دیئے جاتے تھے۔ ان ورکشاپس سے تین ہزار افراد منسلک تھے۔ کچھ عرصہ قبل یہ دونوں ورکشاپس بند کردی گئیں۔ ان سے وابستہ عسکری و سول ملازمین دیگر فوجی یونٹوں میں ٹرانسفر کردیئے گئے۔بھارتی فوج نے پورے بھارت میں اسی نوعیت کی پچاس ورکشاپس بنا رکھی ہیں۔ مرحلے وار سبھی کو بند کرنے کا منصوبہ ہے۔ ان سے منسلک بیشتر ملازمین نجی صنعتوں کو منتقل کیے جائیں گے۔ یوں انہیں تنخواہ دینا بھارتی فوج کی ذمے داری نہیں رہے گی۔ اسی طرح بھارتی جرنیل خطوط کی ترسیل کا قدیم نظام اور بہت سے ملٹری فارمز بھی بند کرنا چاہتے ہیں۔
شیکھتر کمیٹی نے بنیادی طور پر بھارتی فوج غیر عسکری شعبوں کو ٹارگٹ بنایا تھا۔ مدعا یہ تھا کہ وہاں افرادی قوت کم کرکے خرچ گھٹایا جاسکے۔ مگر موجودہ آرمی چیف، جنرل بپن روات فوجی افسروں اور جوانوں کی تعداد بھی کم کرنا چاہتا ہے۔ اسی لیے اس نے اوائل 2018ء میں چار ایسی عسکری کمیٹیاں تشکیل دیں جن کی سربراہی حاضر لیفٹیننٹ جنرل کررہے تھے۔ ستمبر 2018ء کی کمانڈرز کانفرنس میں انہی کمیٹیوں کی سفارشات اور تجاویز پیش کی گئی تھیں۔جنرل بپن روات دسمبر 2016ء میں بھارتی بری فوج کا سربراہ بناتھا۔ اس کی تقرری شروع ہی میں متنازع ہوگئی۔ وجہ یہ کہ تیتیس سال بعد پہلی مرتبہ سینئر ترین جنرل بھارتی فوج کا کمانڈر نہیں بن سکا۔ بپن روات کو دو سینئر جرنیل چھوڑ کر آرمی چیف بنایا گیا۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ روات وزیراعظم مودی کی قوم پرستانہ اور نفرت پہ مبنی مذہبی پالیسیوں سے اتفاق رکھتا ہے۔
پچھلے دو برس میں جنرل روات اپنے بعض متنازع بیانات کی وجہ سے سیکنڈل کھڑے کرچکا۔ جب مقبوضہ کشمیر میں میجر گوگی نے ایک بے گناہ کشمیری نوجوان کو جیپ کے آگے رسیوں سے باندھ کر گھمایا پھرایا تو جنرل روات نے اس اقدام کی حمایت کرڈالی۔ بھارتی آرمی چیف نے اسے درست حرکت قرار دیا۔ تاہم انسانی حقوق کی بھارتی اور بین الاقوامی تنظیموں نے اس بیان پر جنرل روات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔جنرل بپن روات رفتہ رفتہ سیاست دانوں کی طرح سیاسی بیان دینے لگا۔
کچھ عرصے بعد اس نے فرمایا ’’ضروری ہے کہ (بھارتی) قوم فوج سے خوفزدہ رہے۔ جس ملک میں قوم فوج سے خوف نہ کھائے، وہ جلد زوال پذیر ہوجاتا ہے۔‘‘ یہ بیان حکمران جماعت بی جے پی کی پالیسیوں کے عین مطابق تھا جو اقلیتیوں خصوصاً بھارتی مسلمانوں میں اکثریتی فرقے کا خوف و دہشت بٹھانا چاہتی ہے۔اس بیان پر بھی انسانی حقوق کی تنظیموں نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام فوج کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اگر فوج ہی ان میں اپنا خوف پیدا کردے، تو دونوں میں دوریاں جنم لیں گی۔ کئی ماہرین نے لکھا کہ آرمی چیف کو ’’سڑک کے غنڈے‘‘ کی طرح باتیں نہیں کرنی چاہیں۔
جنرل روات نے مگر طرز فکر تبدیل نہیں کی اور متنازع بیانات دینے پر تلا رہا۔ایک بار ارشاد فرمادیا کہ خواتین جنگ میں حصہ نہیں لے سکتیں کیونکہ وہ نرم و نازک اور جذباتی ہوتی ہیں۔ وہ مخالفین مارنے کے لیے گولیاں نہیں چلاسکتیں۔ متنازع بیانات کے باوجود قوم پرست بھارتیوں میں جنرل روات کافی مقبول ہے اور وہ اسے اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ پچھلے آرمی چیفس کی طرح جنرل روات بھی چاہتا ہے کہ خصوصاً بھارتی بری فوج اس قابل ہو جائے کہ وہ دشمن پر جلد ازجلد وار کرسکے۔ اسی لیے وہ بری فوج میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں لارہا ہے۔
چھوٹے پیمانے پر اس قسم کی تبدیلیاں پہلی بار جنرل کے سندرجی لایا تھا جب اس نے چار سریع الحرکت ڈویژن کھڑے کیے۔ ہر ڈویژن ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کا ایک ایک بریگیڈ رکھتا تھا۔ مقصد یہی تھا کہ دشمن پر جلد از جلد دھاوا بولا جاسکے۔اب جنرل روات ’’فوری حملے‘‘ کی حکمت عملی کے تحت ہی اینٹیگریٹڈ بیٹل گروپس متعارف کرانا چاہتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ چین کی بری فوج بھی 2013ء سے ’’کمبائنڈ آرمز بریگیڈ‘‘ تشکیل دے رہی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ایسا ہر بریگیڈ آزادانہ طور پر ارضی و فضائی جنگ لڑنے کے قابل ہوجائے۔بھارتی جرنیلوں کی اکثریت چاہتی ہے کہ بری فوج کے تمام چالیس ڈویژن اینٹیگریٹڈ بیٹل گروپس میں تقسیم کر دیئے جائیں۔ یوں تقریباً 140 ایسے گروپس وجود میں آئیں گے۔
یہ واضح رہے، پاک بھارت سرحد تقریباً تین ہزار کلو میٹر طویل ہے۔ یہ کوئی سیدھی لکیر نہیں… کشمیر میں اس سرحد پر بلند و بالا برفانی پہاڑ کھڑے ہیں۔ اکھنور اور چھمب میں سطح مرتفع آجاتی ہے۔ پنجاب میں ندی نالے، نہریں اور دریا پھیلے ہیں۔ راجھستان میں صحرا ہیں اور گجرات میں دلدلیں۔ غرض اگر بھارتی فوج نے اینٹیگریٹڈ بیٹل گروپس تشکیل دیئے تو ہر گروپ کو علاقے کے حساب سے متعلقہ ہتھیاروں اور سازوسامان سے لیس کرنا ہوگا۔ تبھی ہر گروپ جغرافیائی رکاوٹیں دور کرکے جنگ لڑسکے گا۔ایک سو چالیس اینٹیگریٹڈ بیٹل گروپس کی تشکیل سے پچانوے میجر جنرلوں کی نئی ملازمتیں جنم لے سکتی ہیں۔ اس طرح نچلے افسروں کی ترقی کا راستہ کھل جائے گا۔ فی الحال ایک بھارتی کرنل کو بریگیڈیئر بننے کے لیے چھ تا آٹھ سال انتظار کرنا پڑتا ہے۔بھارتی جرنیلوں کی نزدیک اینٹیگریٹڈ بیٹل گروپس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ بھارتی بری فوج کو پھر چالیس ڈویژن ہیڈکوارٹر کی ضرورت نہیں رہے گی۔ وجہ یہ کہ گروپس براہ راست کور ہیڈکوارٹر کی ماتحتی میں ہوں گے۔ ڈویژن ہیڈکوارٹر ختم ہونے سے بھارتی فوج کو سالانہ کروڑوں روپے کی بچت ہوگی۔
اسی طرح بھارتی عسکری قیادت این سی سی ڈائریکٹوریٹ، ملٹری ٹریننگ ڈائریکٹوریٹ اور ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ملٹری فارمر کے ادارے بھی ختم کرنا چاہتی ہے۔ مزید براں بہت سے ڈائریکٹوریٹ یا انفرادی عہدے ضم کردیئے جائیں گے تاکہ رقم بچائی جاسکے۔ مثال کے طور پر ڈائریکٹر جنرل سگنلز اینڈ ٹیلی کام اور ڈائریکٹر جنرل انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عہدے ختم کرکے نیا عہدہ، جی ڈی ایس ٹی تخلیق کیا جائے گا۔بھارتی فوج نے حال ہی میں ہائی برڈ جنگ لڑنے کے لیے ایک نیا ادارہ ’’ڈائریکٹوریٹ جنرل آف شپنگ آف انفارمیشن انوائرمنٹ‘‘ کھولا ہے۔ ختم کیے اداروں سے کئی افسر اس نئے ادارے میں آجائیں گے۔پچھلے چند برس سے بھارتی عسکری قیادت میں یہ نظریہ جنم لے چکا کہ یہ امکان بڑھتا جارہا ہے، مستقبل میں بھارت کو بیک وقت دو محاذوں پر چینی اور پاکستانی افواج کا سامنا کرنا پڑے۔ یہی وجہ ہے، بھارتی جرنیل اب اسی نظریے کو سامنے رکھ کر نئی عسکری حکمت عملیاں ترتیب دینے لگے ہیں۔ مگر ان کے نئے منصوبے اسی وقت عملی صورت اختیار کریں گے جب جرنیلوں کے ہاتھ پیسہ آجائے۔
پیسہ کہاں سے آئے؟
مثال کے طور پر بھارتی فوج کو نئے جنگی اور باربردار ہیلی کاپٹر خریدنے کی خاطر دس کھرب روپے کی ضرورت ہے لیکن حکومت بھی اتنی زیادہ رقم بھارتی فوج کو نہیں دے سکتی کیونکہ اس کا سارا بجٹ بگڑ جائے گا۔اسی طرح بھارتی بری فوج میں باقاعدہ اور تربیت یافتہ فوجیوں کی تعداد آٹھ لاکھ ہے۔ یہ کوئی معمولی تعداد نہیں۔ معنی یہ کہ ان فوجیوں کے لیے بنیان جیسی معمولی شے بھی خریدنا پڑے تو کروڑوں روپے خرچ ہوجاتے ہیں۔ اور جدید ہلکا اسلحہ خریدنا پڑے تو بات کھربوں روپے تک جاپہنچتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان فوجیوں کے لیے رائفل، کاربائین اور ہلکی مشین گنیں خریدنے پر پندرہ کھرب روپے خرچ ہوسکتے ہیں۔مزید براں بھارتی فوج چین سے متصل پہاڑوں پر جنگ لڑنے کی خاطر نئی کور کھڑا کرنا چاہتی ہے۔ اس کور سے ڈویژن (یا اینٹی گریٹڈ بیٹل گروپ) نئے ہتھیاروں اور سازوسامان سے لیس ہوں گے۔ اس کور کے لیے بھی کھربوں روپے درکار ہوں گے۔ یہی نہیں، بھارتی فوج جدید خطرات مثلاً انفارمیشن جنگ سے نمٹنے کی خاطر نئے ادارے قائم کرنا چاہتی ہے۔ یہ عمل بھی بھارتی رقم سے انجام پائے گا۔
بھارتی بری فوج مگر جنگجو مزاج نریندر مودی کے ہوتے ہوئے بھی حکومت سے مطلوبہ رقم لینے میں شدید دشواری محسوس کررہی ہے۔ بڑی وجہ یہ ہے کہ حکمران جماعت بی جے پی اور اپوزیشن کے بہت سے رہنما سمجھتے ہیں کہ بری فوج سفید ہاتھی بن چکی جو خزانے کا بڑا حصہ ہڑپ کرجاتی ہے۔ اسی لیے مودی حکومت بھی عسکری قیادت پر زور دے رہی ہے کہ وہ اخراجات کم کرے تاکہ رقم کی کمی دور ہوسکے۔بھارتی افواج کا ایک بڑا خرچ سابق فوجیوں کی پنشن ہے۔ بھارت میں دو کروڑ سابق فوجی افسر و جوان آباد ہیں۔ حکومت ہر سال انہیں پنشن کی مد میں دس کھرب روپے ادا کرتی ہے۔ اس رقم کی وسعت کا اندازہ یوں لگائیے کہ یہ پاکستان کے کل دفاعی بجٹ کا دوگنا حصہ ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے برسوں میں یہ رقم مسلسل بڑھتی چلی جائے گی۔ گویا بھارتی افواج کو تنخواہوں اور پنشن کی مد میں زیادہ رقم خرچ کرنا پڑے گی۔بھارتی ماہرین عسکریات کا کہنا ہے کہ مودی حکومت بھارت کو علاقائی سپرپاور بنانا چاہتی ہے لیکن خیال اور عمل بالکل جداگانہ چیزیں ہیں۔ اگر حکومت نے جدید ترین اسلحہ نہیں خریدا، اپنے جوانوں
کو مناسب تنخواہیں اور سہولیات نہیں دیں، تو علاقائی سپرپاور بننا تو دور کی بات ہے، بھارتی افواج مملکت کا دفاع صحیح طرح نہیں کرسکیں گی۔
بڑھتے اخراجات کی تشویش ناک صورتحال ہی نے بھارتی جرنیلوں کو مجبور کردیا کہ وہ بری فوج میں ڈائون سائزنگ کے عمل کا آغاز کردیں۔ لیکن یہ سارا منصوبہ ابھی کاغذات تک محدود ہے اور بہت کم عملی روپ اختیار کرچکا۔ وجہ یہ ہے کہ بعض جرنیل اس ڈائون سائزنگ منصوبے کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے اخراجات پر خاص فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن یہ بری فوج کو نئے اور مزید پیچیدہ مسائل میں گرفتار کراسکتا ہے۔
گویا بڑھتے اخراجات نے بھارتی بری فوج کو بڑی مشکل صورتحال پر لاکھڑا کیا ہے۔ اگر وہ ڈائون سائزنگ کرکے اخراجات کم کرتی ہے، تو وہ نئے مسائل میں گھر سکتی ہے۔ مثلاً کئی معاملات افرادی قوت کم ہونے سے ٹھپ ہوسکتے ہیں۔ اگر وہ ڈائون سائزنگ نہیں کرتی، تو فوج کو ملنے والی بیشتر رقم غیر عسکری اخراجات ہڑپ کر جائیں گے۔ یوں بھارتی فوج جدید ترین ہتھیار اور عسکری سامان خرید کر خود کو ہائی ٹیک آرمی کا روپ نہیں دے سکتی۔ اسے پھر فرسودہ اور قدیم ہتھیاروں اور سامان پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔ لیکن اس صورت حال میں بھارتی فوج اپنی مملکت کا بخوبی دفاع ہی کرلے، تو یہ بڑی کامیابی سمجھی جائے گی۔
نئی بھارتی عسکری حکمت عملی اور پاکستان
جارح مزاج بھارتی حکمران طبقے اور مسئلہ کشمیر جنم لینے کی وجہ سے پاکستان کو اوائل ہی میں طاقتور افواج کھڑا کرنا پڑیں تاکہ ملکی دفاع مضبوط بنایا جا سکے۔دفاع پہ کثیر سرمایہ خرچ کرنے کا مثبت نتیجہ نکلا۔دشمن نے کئی بار حملے کیے مگر اللہ پاک کے فضل وکرم سے پاکستان کا وجود قائم ودائم ہے۔دشمن معاشی وعسکری طور پر کہیں زیادہ طاقتور ہوتے ہوئے بھی ارض پاک کو ہڑپ نہیں کر سکا جو اس بھارتی طبقے کا دیرینہ خواب ہے۔
جب بھارتی عسکری قیادت کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن سامنے لائی تو اس سے پاکستان کو خطرہ محسوس ہوا۔وجہ یہ کہ بھارتی بری فوج اپنی عددی برتری کے باعث پاکستان کے وسیع علاقے پہ قبضہ کر سکتی ہے۔اس ڈاکٹرائن کا جواب دیتے ہوئے پاکستان ’’تدبیراتی ایٹمی ہتھیار‘‘ (tactical nuclear weapons) ایجاد کرنے کی بھرپور کوشش کرنے لگا۔تدبیراتی ایٹمی اور غیر ایٹمی ہتھیار سے ایسا میزائل یا گائڈڈ بم مراد ہے جو کم فاصلے کی مار رکھتا ہو ۔مگر اتنا بڑا ہو کہ وسیع علاقے پر تباہی پھیلا سکے۔پاکستان کا پہلا ایسا ہتھیار ’’نصر میزائل‘‘ہے جو2011 ء میں سامنے آیا۔یہ میزائل 70کلومیٹر دور تک چھوٹا ایٹم بم لے جا سکتا ہے۔یہ میزائل کسی بھی علاقے سے بڑی تعداد میں چھوڑنا ممکن ہے۔
بھارت اب اپنی بری فوج کو اینٹیگریٹڈ بیٹل گروپس میں تقسیم کرنے کا منصوبہ بنا چکا۔یہ نئی جنگی حکمت عملی پاکستان کو مجبور کر دے گی کہ نہ صرف مختلف اقسام کے تدبیراتی ایٹمی اور غیر ایٹمی ہتھیار ایجاد کیے جائیں بلکہ انھیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں بنانے کی سعی بھی ہو گی۔مقصد یہ ہو گا کہ دشمن کے حملہ آور اینٹیگریٹڈ بیٹل گروپس پر یہ ہتھیار پھینک کر ان کا راستہ روک دیا جائے۔
ایسے ہتھیاروں میں بارودی سرنگیں،ڈرون اور زیرزمین دبا کر رکھنے جانے والے ہائی ٹیک آلات شامل ہو سکتے ہیں۔یہ ایک عمدہ عسکری حکمت عملی ہے۔مذید براں پاکستان کے لیے یہ خبر بھی خوش آئند ہے کہ بڑھتے اخراجات نے بھارتی فوج کو پریشان کر رکھا ہے۔حتی کہ وہ اتنی رقم بھی نہیں رکھتی کہ جدید اسلحہ خرید کر اپنے فرسودہ اسلحے سے پیچھا چھڑا سکے۔اگرچہ بھارت معاشی طاقت بن کر ابھر رہا ہے لیکن اب بھی اس کے دفاعی بجٹ کا کم حصہ جدید ہتھیاروں کی خرید پہ صرف ہوتا ہے۔گویا یہ عمل مستقبل میں بھی بھارت اور پاکستان کے مابین عسکری طاقت کا توازن برقرار رکھے گا جو ایک عمدہ خبر ہے۔اس دوران پاکستان کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ اپنی افواج کو جدید ترین تدبیراتی ایٹمی اور غیر ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کر لے۔یوں توازن مستقل طور پر برقرار رکھنا ممکن ہو جائے گا۔