بھگت سنگھ: سکنہ بنگا چک نمبر 105 ضلع لائلپور
وہ کوئی خوشبوتھی، بانسری کی لَے تھی یا اس کے خیال کی چھاؤں جو مجھے اپنی طرف بلا رہی تھی۔ فیصل آباد سے 17 کلومیٹر دور جڑانوالہ روڈ سے بائیں ہاتھ مڑیں تو تقریباً تین کلومیٹر کے فاصلے پر وہ بستی ہے جہاں مجھے جانا ہے۔ اس بستی میں ایک گھر ہے جس میں آزادی کے سرفروش بھگت سنگھ نے جنم لیا تھا، جس نے انگریزوں کی دشمنی وراثت میں پائی تھی۔ جس نے 24 سال کی عمر میں اپنے وطن کی آزادی کی خاطر پھانسی کے پھندے کوچوم کرگلے میں ڈالا تھا اور جس نے موت سے پہلے اپنی تمام تر توانائیوں کو جمع کرتے ہوئے نعرہ لگایا تھا۔ ’انقلاب زندہ باد۔‘
اس بستی کا نام 105 بنگا ہے۔ بنگا جانے والی سڑک کے دونوں طرف کھیتوں میں قدِ آدم فصلیں لہلہا رہی ہیں۔ گاؤں کی ٹیڑھی میڑھی گلیوں سے ہوتے ہوئے اب میں بھگت سنگھ حویلی کے سامنے کھڑا ہوں۔ پاکستان بننے کے بعد یہ حویلی وِرک خاندان کی تحویل میں آ گئی تھی۔ اس خاندان کے ہونہار سپوت ثاقب ورک نے اس حویلی کو میوزیم کی شکل دے دی ہے جہاں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی نادر تصاویر آویزاں ہیں۔ حویلی میں دو کمرے اور ایک وسیع وعریض صحن ہے۔ اسی حویلی میں 1907 میں بھگت کی پیدائش ہوئی۔ یہ خاندان حریت پسندوں کاخاندان تھا۔ اس کے والد کشن سنگھ اورچچا اجیت سنگھ اور سورن سنگھ انگریزوں کے تسلط کے خلاف برسر پیکار تھے۔ انگریزوں کی حکمرانی سے نفرت اس کی گھٹی میں پڑی تھی
13 اپریل 1919ء کو جب جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر کے حکم پر 400 معصوم لوگوں کوموت کے گھاٹ اتارا گیا اس وقت بھگت سنگھ کی عمر صرف 12سال تھی اور وہ لاہور کے ایک سکول میں زیرِ تعلیم تھا۔ اگلے روز سکول جانے کی بجائے جلیانوالہ باغ پہنچ گیا جہاں کی مٹی میں معصوم لوگوں کاخون شامل ہوگیا تھا۔ وہ خون آلود مٹی ایک بوتل میں بھر کر گھر لے آیا۔ اس سانحے کے اثرات بھگت کے ذہن پر نقش ہوگئے۔ تحریکِ عدم تعاون کے نتیجے میں بھگت نے اپنا سکول چھوڑ دیا تھا، اس کے بعد اس نے نیشنل کالج لاہور میں داخلہ لے لیا۔
بھگت کو جو پہلے ہی جذبۂ حب الوطنی سے سرشارتھا نیشنل کالج کی شکل میں ایسی جگہ میسر آ گئی تھی جس نے اس کی سیاسی بصیرت کو پروان چڑھایا۔ نیشنل کالج کے بانیوں میں لالہ لاجپت رائے اور بھائی پرمانند کا شمار ہوتا ہے۔ یہاں بھگت نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے نوجوان بھارت سبھا کی نام سے ایک عسکری تنظیم قائم کی، جس کا بنیادی مقصد جدوجہدِ آزاد ی میں تیزی لانا تھا۔ بھگت نے 1924 میں ہندوستان ری پبلکن ایسوسی ایشن (HRA) میں شمولیت اختیار کی۔ بھگت اور اس کے ساتھی آزادی کی اس جدوجہد میں قومی سطح پر نہایت فعال کردار ادا کرنا چاہتے تھے اور یہ موقع انہیں جلد میسر آ گیا جب 30 اکتوبر 1928 کو سائمن کمیشن نے لاہور آنے کا اعلان کیا۔
لاہور ریلوے سٹیشن پر احتجاج کے لیے ہزاروں لوگوں کا اجتماع تھا جس کی قیادت نامور کانگریسی راہنما لالہ لاجپت رائے کر رہے تھے۔ اس مشتعل ہجوم پر پولیس نے لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ انگریز افسر سکاٹ کے اشارے پر لالہ لاجپت پر انتہائی بہیمانہ جسمانی تشدد کیا گیا حتیٰ کہ ان کے جسم سے خون بہنے لگا اور وہ زمین پر گر گئے۔ لالہ لاجپت زخموں کی تاب نہ لاسکے اور17 نومبر 1928 کو اس جہاں فانی سے رخصت ہو گئے۔ اس واقعے کا بھگت اور اس کے ساتھیوں پر بہت گہرا اثر ہوا۔ HRA کے اراکین نے ایک میٹنگ منعقد کی جس میں دو اہم فیصلے کئے گئے۔
بھگت سنگھ کی تجویز کے مطابق تنظیم کا نام بدل کر ہندوستان سوشلسٹ ری پبلیکن ایسوسی ایشن (HSRA) رکھ دیا گیا۔ دوسرا اہم ترین فیصلہ سکاٹ کے قتل کا تھا۔ جن لوگوں نے سکاٹ کو قتل کرنا تھا ان میں چندرا شیکھر آزاد، بھگت سنگھ، راج گرو اور جے پال کا نام تھا۔ لیکن شناخت میں غلطی کی بنا پر ان لوگوں نے سکاٹ کے بجائے ایک اور ASP سانڈرز کو مار ڈالا۔ بھگت اور اس کے ساتھی جائے وقوع سے فرار ہو گئے اور مزنگ روڈ پر واقع اپنے ٹھکانے پر پہنچ گئے۔ پولیس آفیسر کے قتل نے پورے پنجاب میں ہلچل مچا دی اور پولیس نے لاہور کا محاصرہ کر لیا لیکن بھگت سنگھ اور اس کے دوست ایک اور انقلابی درگا دیوی کی مدد سے کلکتہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ کلکتہ میں بھگت کی ملاقات بہت سے انقلابیوں سے ہوئی جن میں جندر ناتھ دس بھی شامل تھا جو بم بنانے کا ماہر تھا۔
برطانوی حکومت علاقے میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور بدامنی سے بخوبی آگاہ تھی لہٰذا اس نے اسمبلی میں دو بل پیش کرنے کا فیصلہ کر لیا جن میں سے ایک بل کا نام ’پبلک سیفٹی بل‘ (Public Safety Bill) اور دوسرے کا نام ’ٹریڈ ڈسپیوٹ بل‘ (Trade Dispute Bill) تھا۔ ان دونوں بلوں کا بنیادی مقصد انسانی حقوق کی پامالی تھا۔ اس صورت حال کے تناظر میں بھگت سنگھ اور بی کے دت نے اسمبلی ہال میں بم پھینکنے کا فیصلہ کیا تاکہ قانون سازوں کی توجہ حاصل کی جائے اور وہ حکومت سے رابطہ کریں۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ یہ دیسی ساختہ بم بے ضرر قسم کے تھے اور ارادتاً ایسی جگہوں پر پھینکے گئے جہاں کوئی آدمی زخمی نہ ہو پائے۔
پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق بھگت سنگھ اور بی کے دت نے رضاکارانہ طور پر اپنی گرفتاری پیش کی۔ ان دونوں کے اپنے ساتھی جے پال اور ہنس راج سانڈرز کے قتل کیس میں وعدہ معاف گواہ بن گئے۔ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے ٹرائل کورٹ کا پلیٹ فارم استعمال کیا تاکہ وہ اپنا پیغام کورٹ کی پیشیوں کے ذریعے بیرونی دنیا تک پہنچا سکیں کیونکہ ان پیشیوں کی باقاعدہ کوریج اخباروں میں ہو رہی تھی۔
عدالتی کارروائی نے بھی ڈرامے کی شکل اختیار کر لی تھی کیونکہ برطانوی راج کا بنیادی مقصد ان آوازوں کو دبانا تھا جو کہ ان کی حاکمیت کو چیلنج کر رہی تھیں۔
اس عدالتی سیاست کا نتیجہ یہ نکلا بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گروکو موت کی سزا سنا دی گئی۔ یہ خبرسنتے ہی سارے ہندوستانی سکتے میں آ گئے۔ بھگت اور اس کے ساتھیوں نے ہمت نہیں ہاری اور اس امتیازی سلوک کے خلاف طویل بھوک ہڑتال شروع کر دی۔ یہ بھوک ہڑتال 110 دن تک جاری رہی۔ اس ہڑتال کا بنیادی مقصد بیرونی دنیا کوسلطنتِ برطانیہ کا مکروہ چہرہ دکھانا تھا۔ 23 مارچ 1931 کی شام کو جب بھگت اور اس کے ساتھیوں کو پھانسی دی گئی تو تختہ دار پرکھڑے انہوں نے ’انقلاب زندہ باد‘ کے نعرے لگائے۔ جیل کے افسروں کے لئے یہ بات حیرت کا باعث تھی کہ پھانسی کے تختے پر کوئی کیسے اتنی جرأت کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ انہیں شاید معلوم نہیں تھا کہ اس استقامت کے پیچھے گہری انقلابی فکرکار فرما تھی۔ اس جرأت کے پس منظر میں ایک طویل سفرتھا اور اس سفر کے کئی روشن سنگِ میل تھے جن میں بھگت کا اپنا خاندان، جلیانوالہ باغ کے سانحے کا اثر، نیشنل کالج کی آبیاری اور انقلابی تنظیموں سے روابط تھے۔
دوسرا اہم پہلو جس نے بھگت سنگھ کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ وہ کتابوں کا عمیق مطالعہ تھا۔ بھگت کتابوں کا رسیا تھا اس کے لیے کتابوں کے بغیر زندگی کا تصور ادھورا تھا۔ اس نے اپنے وکیل اور دوست سے بھی یہی التجا کی تھی کہ جیل میں اسے کتابوں کی رسد کبھی معطل نہ ہو۔ بھگت نے دوارکا داس لائبریری میں موجود انقلابی افکار کی تمام کتابیں کھنگال لی تھیں۔ بھگت نے انقلابی فلسفوں کو خود سے پڑھا اور سمجھا تھا۔ وسیع مطالعہ نے اسے عقلمندانہ سوچ، پُراثر دلائل اور ترغیبی مہارتوں سے لیس کر دیا تھا۔
جس دن اسے پھانسی دی جانا تھی اسی دن اس کے وکیل نے اسے ’انقلابی لینن‘ کتاب پیش کی۔ جب جیل کا ہرکارہ پھانسی کا پیغام لے کر اس کی کوٹھڑی میں آیا تو یہی کتاب پڑھ رہا تھا۔ وہ مسکراتے ہوئے تختۂ دار پر آیا ‘انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ لگایا اور پھانسی کے پھندے پر جھُول گیا۔
میں ماضی کی راہوں سے واپس بھگت سنگھ کی حویلی آ جاتا ہوں۔ اُس کمرے کو دیکھتا ہوں جہاں بھگت سنگھ پیدا ہوا تھا اور اس کے ساتھ وہ بیٹھک جہاں وہ اپنے انقلابی دوستوں کے ساتھ مل کر وطن کی آزادی کے منصوبے بنایا کرتا تھا۔حویلی کے صحن میں بیری کا وہی پُرانا درخت ہے جس کے سائے تلے وہ کتابوں کا مطالعہ کرتا تھا۔ ساری چیزیں اُسی طرح ہیں۔
حویلی کا دروازہ کھلا ہے جیسے وہ بھگت کا انتظار کر رہا ہو۔ بھگت تو اس حویلی میں کبھی واپس نہیں آئے گا لیکن کوئی خوشبو ہے، بانسری کی لَے یااس کے خیال کی چھائوں جواُس کے چاہنے والوں کو اپنی طرف بُلاتی رہتی ہے۔