کیا ہو رہا ہے……..
پس آئینہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ریحان منیر زبیری
اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہم گزشتہ 74سال سے ایک آزاد ملک میں رہ رہے ہیں اورہمارے حکمرانوں کایہ دعویٰ بھی ہے کہ اس ملک میں ہر شہری کو تمام بنیادی حقوق حاصل ہیں ۔مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب سے یہ ملک آزاد ہوا ہے یہاں نہ کسی کوآزادی ملی نہ ہی شہریوں کو انکے بنیادی حقوق صحیح معنوں میں مل سکے۔اسکی کیا وجہ ہے یہ ہر ذی شعور شخض بخوبی جانتا ہے ۔قائد اعظمؒ کی رحلت کے بعد سے ہی یہاں سیاسی دھنگا مشتی شروع ہوگئی تھی سب سے پہلے جو غلط کام کیا وہ لیاقت علی خان نے امریکہ کی طرف ہاتھ بڑھا کر کیا جسکا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں پھر اسکے بعد یکے بعد دیگرے ہمارے ہاں اقتدار بدلتا رہا مختلف پارٹیوں کے لیڈر اپنی اپنی دکان چمکاتے رہے ۔کسی نے جمہوریت کاراگ الاپا تو کسی نے سوشلزم کانعرہ بلند کیااورکسی نے اسلام کا نام لیکر عوام کو بے وقوف بنایا کسی نے ملک اورقوم کیلئے نہ سوچا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں نہ ہی جمہوریت پنپ سکی اورنہ ہی یہاں کوئی ایسا لیڈر آسکا جوملک کوآگے لیجا سکتا ۔
ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک آج کہاں کھڑے ہیں یہ دیکھ کرافسوس ہوتا ہے کہ ہم ابھی تک ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں شامل ہیں اوروہ ممالک جو ہمارے بعد آزاد ہوئے تھے ترقی یافتہ ممالک بن چکے ہیں۔کیاوجہ ہے کہ ہم اس طرح آگے نہیں بڑھ سکے جیسے اورترقی پذیر ممالک بڑھے بڑی سیدھی سے بات ہے کہ ہم نے ہندوستان سے آزادی حاصل کی اسکی آبادی ہم سے کئی گنازیادہ ہےمگر وہا ں آج تک چاہے کیسے ہی حالات کیوں نہ ہوں فوج نے سیاست میں دخل اندازی نہیں کی اسکے برعکس ہمارے ہاں ان 74سالوں میں صرف گنتی کے چند سال ہی ہیں جن میں سیاسی حکومتیں برسراقتدار رہیں باقی عرصہ مارشل لاہی رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔فوج نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہمیں سیاست میں گھسیٹا جائے ان سیاستدانوں نے ہی انہیں سیاست میں داخل کیا ۔اس میں انکا قصور نہیں یہ سب ہمارا ہی کیا دھرا ہے ۔
جتنا ہمارے ہاں جمہوریت کاڈھنڈورا پیٹا گیا اتنا شائد ہی کہیں اورپیٹا گیا ہومگر عملی طور پر یہاں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ہمارے سیاستدان قومی اورصوبائی اسمبلیوں میں جوہلڑبازی کرتے ہیں کیااس کو جمہوریت کہتے ہیں۔۔۔۔ان اسمبلیوں میں قانون سازی کم اورایک دوسرے پر الزامات اورنعرے بازی زیادہ ہوتی ہے ۔
اس وقت یہ حال ہے کہ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا جارہا ہے حکمران اپنے سے پہلے حکومت کرنیوالوں پر الزام لگا رہے ہیں کہ انکے لئے گئے قرضوں کی وجہ سے یہ حالات ہیںبے تحاشا قرضوں کی وجہ سے ملک کی معیشت کا بیڑا غرق ہوگیا ہے ۔مہنگائی حدسے بڑھ گئی ہے۔غریب کیلئے دووقت کی روٹی کاحصول مشکل ہوگیا ہے۔عجیب افراتفری کاعالم ہے۔امیر امیر تراور غریب غربت کی لکیر سے نیچے گرتا جارہا ہے ۔پھر کہا جاتا ہے کہ یہ سب عوام کی حالت بہتر بنانے کے لئے کیا جارہا ہے۔ڈالر روزانہ اوپر جارہا ہے اورہماراروپیہ نیچے کی طرف تیزی سے جارہا ہے اس سے لئے جانیوالے قرضوں کا بوجھ اوربڑھ رہا ہے ایسے میں کس طرح معیشت آگے بڑھے گی اورعوام کی حالت بہتر ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔
احتساب کانام ہر دور میں لیاجاتا ہے ادارہ بھی بنتا ہے مگر بڑی مچھلیاں ہمیشہ بچ کرنکل جاتی ہیں اس بار تحریک انصاف کی حکومت نے بہت بڑا نعرہ لگایا تھا کہ ہم ایسا احتساب کرینگے کہ ملک کی تمام لوٹی ہوئی دولت واپس آجائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر افسوس کہ یہ احتساب بھی سابقہ احتسابی نعروں کی طرح ہی ثابت ہورہا ہے اب تک کسی بڑے سیاستدان یا بیوروکریٹ سے ایک پائی بھی وصول نہیں کی جاسکی نہ ہی عدالتوں سے انکی کرپشن ثابت ہوئی مگر اب تک یہی کہاجارہا ہے کہ احتساب کرینگے۔اتنا عرصہ گزرجانے کے بعد بھی ہم وہاں ہی کھڑے ہیںجہاں آزادی کے بعد کھڑے تھے ۔یہاں نہ کوئی نظام ہے نہ آئین کی پاسداری ‘ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچی جارہی ہیں یہاں تک کہ معزز اداروں کوبھی نہیں بخشا جارہا۔کبھی ویڈیو لیک‘کبھی آڈیو لیک کے ڈرامے چل رہے ہیںکیایہ سب جمہوریت کاحصہ ہے اگر آپ کے پاس کسی ادارے کے معزز رکن کی ویڈیو یا آڈیو ہے تو آپ اس طرح ٹی وی چینلز پرآکر اسے ریلیز کرنے کے سیدھا عدالت لیکر جائیں اوروہاں سے اسکے اصل اورنقل ہونے کافیصلہ لیں اس طرح ٹی وی ٹاک شوز میں ایک دوسرے سے رائے لینے کاکوئی مقصد نہیں سوائے اسکے کے عوام میں بے چینی کی فضا پیدا ہواوراس سے اپنا مفاد حاصل کیا جائے ۔ایسا کب تک چلے گا کیا اس ملک میں ایسے ہی ڈرامے ہوتے رہیں گے اورایسے ہی لیڈر آتے رہیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ایک سوال ہے جسکا جواب شائد اب تو کسی کے پاس نہ ہومگر بہت جلد وہ عوام جوہمیشہ خاموش رہتے ہیں وہ منظر عام پرآئیںگے اوراپنا فیصلہ سنائیں گے۔ہمارے سیاستدانوں اورحکمرانوں کوسنجیدگی سے یہ سوچنا چاہیے کہ دنیا میں جس طرح تبدیلیاں آرہی ہیں اورعالمی منظر جس تیزی سے بدل رہا ہے اس سارے پس منظر میں پاکستان کہا ں کھڑا ہے اورہم کہاں کھڑے ہیں ۔اگر ہم نے اپنی انا کوختم نہ کیا اورانتقامی سیاست سے آگے بڑھ کر عوام کیلئے نہ سوچا تو وہ سامراجی قوتیں جو اس ملک کوپھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتی انکی چالیں کامیاب ہونگی اورہم پھر کچھ بھی نہیں کرسکیں گے ۔
اس وقت صورتحال یہاں تک گھمبیر ہوچکی ہے کہ کسی کوکچھ نظر نہیں آرہا کہ ہو کیارہا ہے ۔لوگ بے حد پریشان ہیں کہ جائیں تو کہاں جائیں سرکاری ملاز م ہو یا کاروباری شخص ہر کوئی ایک ہی راگ الاپ رہا ہے کہ زندگی گزارنا مشکل ہوگیا ہے کوئی حکومت کو برا بھلا کہہ رہا ہے تو کوئی حکمرانوں کوبددعائیں د ے رہا ہے ۔ایسا کب تک چلے گا اب وقت آگیا ہے کہ عوام اپنے حقوق کیلئے آگے آئیں اورآنے والے انتخابات میں اپنی رائے کا اظہار کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ اپنے ضمیرکی آواز پر کریں اگر اس بار پھر سیاستدانوں کے گھسے پٹے نعروں کے پیچھے لگ کر اپنے ووٹ کوپامال کیا تو اسکے بہت بھیانک نتائج ہونگے ۔