جلد پر سفید داغ بے ضرر بھی ہوسکتے ہیں خطرناک بھی
(صحت ڈیسک/میڈیا 92 نیوز) زندگی کے مختلف ادوار میں ہماری جِلد خصوصاً چہرے کی جِلد کئی تبدیلیوں سے دوچار ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں کبھی کیل، مہاسے پریشانی کا سبب بنتے ہیں، تو کبھی داغ دھبّے، جو بعض اوقات ازخود یا پھر علاج معالجے کے بعد ٹھیک ہوجاتے ہیں، البتہ جِلد پر پڑنے والے دو اقسام کے داغ دھبّے خاص توجّہ کے متقاضی ہیں۔ اوّل وہ سیاہ داغ جو جلنے، کٹنے، کسی بیماری یا حمل کے باعث، خون کی شدید کمی یا پھر ادویہ کے اثرات کی وجہ سے چہرے کے کسی بھی حصّے پر تتلی کی سی شکل میں نمودار ہوجاتے ہیں، اگر ان پر بروقت توجّہ دی جائے، الٹی سیدھی ترکیبیں استعمال نہ کی جائیں اور معالج کی ہدایت پر عمل کیا جائے، تو یہ دھبّے ختم ہو جاتے ہیں یا پھر مدھم پڑجاتے ہیں۔
جب کہ اگر جسم کے کسی حصّے مثلاً چہرے، گردن، کندھے، سینے، پشت یا پھر ران پر کوئی سفیدی مائل داغ یا دھبّا ظاہر ہوجائے، تو وہ باعثِ تشویش ہے، جسے ہرگز نظرانداز نہ کیا جائے۔ ان سفید دھبّوں کو چار اقسام میں منقسم کیا گیا ہے۔ پہلی قسم میں سفیدی مائل، لائٹ برائون شیڈ کے ننّھے ننّھے دھبّے شامل ہیں، جو بےضرر اور قابلِ علاج ہوتے ہیں۔ ان کی وجہ ایک معمولی سا فنگس ہے، جو جِلد کی سطح پر دھبّوں کا سبب بنتا ہے۔ ان دھبّوں کی سطح قدرے بُھربُھری سی ہوتی ہے اور عموماً معمولی سی رگڑ سے یہ معدوم ہوجاتے ہیں۔ یہ دھبّے موسمِ گرما میں زیادہ واضح جب کہ سردیوں میں ماند پڑجاتے ہیں۔ بعض اوقات پسینے کی زیادتی سے بھی نمایاں ہوجاتے ہیں، لیکن نہا لینے کے بعد ذرا ہلکے ہوجاتے ہیں۔ وہ افراد جن کی رنگت گہری ہو، اُن کی جِلد پر چھینٹ کی مانند یہ سفید دھبّے دُور ہی سے نظر آتے ہیں، لیکن گوری رنگت کے حامل افراد میں یہ گلابی مائل ہوتے ہیں۔
ویسے تو ان دھبّوں میں خارش نہیں ہوتی، لیکن بعض کیسز میں خارش کی شکایت بھی ہو جاتی ہے۔ اگر گھر میں کوئی فرد ان سفید دھبّوں کا شکار ہوجائے، تو دیگر افراد بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا بہتر ہوگا کہ مریض علاج کے ساتھ احتیاطی تدابیر پر بھی عمل کرے۔ مثلاً اپنی زیرِ استعمال اشیاء جیسے تولیا، رومال، کپڑے وغیرہ الگ رکھے۔
دوسری قسم میں بچّوں، بچّیوں کے چہروں پر نمودار ہونے والے گول، سفید دھبّے شامل ہیں، جن کی سطح کھردری ہوتی ہے۔ کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا جِلد خشک ہو کر سفیدی مائل بُھربُھری سی ہوگئی ہے، ان میں خارش نہیں ہوتی۔ ان سفید دھبّوں کے بارے میں یہی تصوّر عام ہے کہ یہ کیلشیم کی کمی کی وجہ سے ہوتے ہیں،لیکن ان دھبّوں کی کئی اور بھی وجوہ ہیں،جن میں سے سب سے اہم بچّوں کی کم زور صحت ہے، توکبھی دھوپ میں مارے مارے پھرنے والوں کے چہرے بھی ان دھبّوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔ نیز ،بعض کیسز میں پیٹ کے کیڑے بھی ان کا سبب بن جاتے ہیں۔ یہ دھبّے پیشانی، گال، ٹھوڑی اور کبھی کبھار گردن پر بھی نمودار ہو جاتے ہیں ،لیکن یہ چھوت کا مرض نہیں اور علاج کے بعد نشان چھوڑے بغیر خود بہ خود ختم ہو جاتے ہیں۔
تیسری قسم میں جذام کے دھبّے شامل ہیں، جو ایک متعدی مرض ہے اور جس کے لاحق ہونے کی وجہ ایک جرثوما ایم لیپرو ہے۔ یہ مرض عام طور پر جِلد اور اعصاب کو نشانہ بناتا ہے۔ اس کے چار مراحل ہیں۔ پہلے مرحلے میں مریض کے جسم خصوصاً گال، بازو، ران اور کولھے پر سفید دائرے سے ظاہر ہونے لگتے ہیں، جن کی سطح کبھی سفیدی مائل، تو کبھی خشکی لیے ہوتی ہے، البتہ جس جگہ دائرے ظاہر ہوں، وہاں حس کم ہو جاتی ہے اور سُن پن محسوس ہوتا ہے۔ یہ مرض کی انتہائی اہم علامت ہے، چوں کہ اس مرحلے پر مرض ابتدائی اسٹیج پر ہوتا ہے، تو اگر فوری درست تشخیص و علاج فراہم ہوجائے، تو مرض پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ تاخیر کی صورت میں مرض تیزی سے پھیل کر ناقابلِ علاج بھی ہو سکتا ہے۔
چوتھی قسم میں برص کے دھبّے شامل ہیں۔ یہ مرض بھی چھوت کا نہیں۔ ابتداء میں ایک آدھ سفیدی مائل دھبّا جسم کے کسی بھی حصّے میں ظاہر ہوتا ہے اور اگر ان دھبّوں کے درمیان کوئی بال بھی ہو، تو وہ بھی سفید ہو جاتا ہے۔ اگر یہ دھبّے سَر میں ہوں، تو بالوں کی لٹیں تک سفید ہو جاتی ہیں۔
بعض کیسز میں برص کے دھبّے برسوں ایک ہی جگہ پر ٹھہرے رہتے ہیں اور بعض افراد میں اس قدر تیزی سے پھیلتے ہیں کہ پورا جسم سفید دھبّوں سے بَھر جاتا ہے۔ برص سے متاثرہ مریض دھوپ کی شدّت برداشت نہیں کر سکتے، اس کے علاوہ انہیں کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور مجموعی طور پر وہ صحت مند ہی رہتے ہیں۔
اس کے علاوہ بعض سفید دھبّے وہ بھی ہوتے ہیں، جنہیں ہم خود مدعو کرتے ہیں۔ یہ دھبّے عموماً چہرے کو حسین بنانے کے جتن کے سبب ظاہر ہوتے ہیں، جیسے خواتین اور لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد اگر رنگ گورا کرنے کےلیے بار بار بلیچ کریم کا استعمال کرتی ہیں، تو اس کے نتیجے میں ان کی قدرتی جِلد متاثر ہو جاتی ہے۔
نیز، الرجی کی صورت میں خارش، جلن کے ساتھ بھی دھبّے پڑ سکتے ہیں۔اسی طرح کیمیکل ملی مہندی کے استعمال سے بھی جِلد پر دھبّےپڑسکتے ہیں۔ بہرحال دھبّے چاہے سیاہ ہوں یا سفید انہیں ہرگز نظرانداز نہ کیا جائے اور ازخود علاج کی بجائے فوری طور پر کسی ماہرِ امراضِ جِلد سے رابطہ کر کے مکمل علاج کروائیں۔