(ایمرا نیوز آن لائن) ہر سال کی طرح اس بار بھی ملک کے حسین، سر سبز و شاداب اور ٹھنڈے علاقوں میں کچھ دن گزارنے کا پلان بنا۔ مری گلیات اور کاغان ناران تو کئی بار ہو آئے۔ اس بار وادی ہنزہ کا پروگرام بنایا۔
ہم کچھ دوست ہر سال کچھ دن شہروں کے ہنگاموں سے دور ضرور گزارتے ہیں۔ اس بار بھی روایت جاری رکھی۔ کافی دن پہلے سے سفر کی تیاریاں شروع کر دی گئیں، کھانے پینے کا سامان، باربی کیو کے لوازمات اور کیمپنگ کی چیزیں اکٹھی کر لی گئیں۔
بالآخر سفر کا دن آ گیا۔ دو گاڑیوں میں ملتان کی گرمی سے بے حال عازم سفر ہوئے۔ گوجرہ سے اسلام آباد موٹر وے اور اس سال نئے تعمیر شدہ ہزارہ موٹر وے سے براستہ حویلیاں ایبٹ آباد پہنچے۔ رات وہاں قیام کیا اور صبح تازہ دم مانسہرہ اور بالاکوٹ سے وادی کاغان روانہ ہوئے۔
بالا کوٹ سے دریائے کنہار سڑک کے ساتھ آ ملتا ہے اور آپ دریا کے بہائو کے مخالف سفر کرتے اور اونچی چڑھائیاں چھڑھتے چھوٹی چھوٹی آبادیوں سے گزرتے وادی کاغان جا پہنچتے ہیں۔
بالاکوٹ سے ہی ٹھنڈک کا احساس ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ کاغان سے پہلے کیوائی کے مقام سے آپ اوپر چڑھائی کا سفر طے کر کے شوگران بھی جا سکتے ہیں لیکن زیادہ امکان ہے کہ یہ سفر آپ کو جیپ پر طے کرنا پڑے گا۔
خیر اس بار کاغان تک سڑک کی حالت بہت بہتر تھی۔ یہاں جگہ جگہ لینڈ سلائیڈنگ ہوتی ہے۔ ایسے میں سڑک اور پلوں کو اچھے طریقے سے بحال اور کھلا رکھنا خود ایک قابل تحسین کام ہے۔
کاغان میں ایک جگہ دریا کنارے رات کو ٹینٹ میں قیام اور خود کھانا پکانا رات گئے گپ شپ ایک فرحت بخش احساس تھا۔
صبح ناران پہنچے۔ شہر پھیلتا جا رہا ہے۔ نئے نئے ہوٹل اور دکانیں کھل گئیں ہیں لیکن صفائی کی صورتحال دگرگوں ہے۔ یہ سب دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ اتنی حسین جگہ اور اتنی بے حسی۔۔۔
کچھ تو ہم خود گندگی پھیلانے کو برا نہیں جانتے، کچھ سہولیات اور قوانین کی عدم موجودگی بھی قصوروار ہے۔ اگر کسی نے جوس کا خالی ڈبہ پھینکنا ہے تو اسے کوڑا دان کہاں سے ملے؟ وہ نیچے ہی پھینکے گا۔ یہی حرکت اگر دبئی میں کی جائے تو پانچ سو درھم جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یہاں ہمارے ہاں سرِ عام تھوکنے، ناک صاف کرنے اور کوڑا پھیلانے کی جو آزادی ہے، کبھی کسی لیڈر نے اس کو مسئلہ سمجھا ہو یا قانون سازی کی بات کی ہو تو کی ہو، ہمارے علم میں تو کم از کم ایسا کوئی بیان نہیں۔
ناران سے آپ چاہیں تو جھیل سیف الملوک اور لالہ زار جیسی حسین جگہوں پر بھی جا سکتے ہیں۔
ہم ناران سے براستہ بٹہ کنڈی، جل کھڈ اور جھیل لولو سر، بابو سر ٹاپ پہنچے۔ یہاں برف آپ کے قدموں میں ہوتی ہے لیکن آکسیجن لیول کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یہاں کی اونچائی سطح سمندر سے چودہ ہزار فٹ سے ذیادہ ہے۔
راستے میں کوہستانیوں کے پھولوں جیسے نظر آنے والے بچے جن کی اکثریت آٹھ دس سال کی بچیاں پر مشتمل تھی، کچھ مانگنے کے لئے آپ کی گاڑیوں سے چمٹ جائیں گیں۔ یہ نظارہ ہرگز اچھا نہی لگتا۔
بابو سر سے ہم اترائی اترتے ہوئے براستہ چلاس تقریباً آ ٹھ سے نو گھنٹے کے سفر کے بعد گلگت شہر کے پاس سے گزرتے ہوئے وادی ہنزہ کے پہلے بڑے شہر علی آباد پہنچے۔
چلاس سے دریائے سندھ کے ساتھ سڑک چلتی ہے جو ذیادہ اچھی حالت میں نہیں ہے۔ آگے شاہراہ قراقرم پر سفر بہت اچھا گزرا۔
راستے میں ایک جگہ نانگا پربت کا نظارہ کرنے کا بھی موقع ملا۔ ہماری خوش قسمتی تھی کہ اس دن بادل کم تھے۔ یہ دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی ہے۔ بہت سے مہم جووُں نے اسے سَر کرنے کی کوشش میں اپنی جان دی۔
علی آباد پہنچ کر ایک مناسب ہوٹل تلاش کیا۔ یہ ایک چھوٹا سا صاف ستھرا شہر ہے۔ سڑک پر ہوٹل، ریستوران، دکانیں، ایک دو بینک اور اسماعیلی بھائیوں کا جماعت خانہ (مسجد کم لوگوں کو بولتے سنا) بھی ہے۔ سڑکیں اور بازار ناران کے مقابلے میں بہت صاف ستھرے ہیں۔ اسی طرح لوگ بھی صاف ستھرے، سادہ اور مہمان نواز ہیں۔ آبادیوں میں پھلدار درختوں میں سیب، خوبانی اور چیری کی کثرت ہے۔ جس کسی کو آٹھ دس مرلے بھی جگہ ملی، اس نے چھوٹا سا گھر بنا کر باقی جگہ کو چمن بنا دیا اور پھل دار درخت لگا لِئے۔
ہنزہ کے سیب، اخروٹ اور خوبانیاں ابھی کچی تھیں البتہ چیریاں پک گئی تھیں، وہ ہم نے خوب مزے لے لے کر کھائیں۔ یہ چیریاں صرف ایک سو ساٹھ روپے کلو تھیں۔ رات کو ایک ریستوران سے کھانا کھایا اور سو لئے۔
اگلی صبح میری اب تک کی زندگی کی شائد سب سے حسین صبح تھی۔ ہوٹل کی کھڑکی سے یہاں کی حسین ترین پہاڑی چوٹی راکا پوشی پر طلوع آفتاب کا منظر دیکھا۔ یہ حسین چوٹی پہلے سنہری اور بعد میں چاندی کے رنگ میں ڈھل گئی جبکہ وادی میں ابھی تک دھندلکے کا راج تھا۔
یہاں کی مشہور جگہوں کا مقامی لوگوں سے پوچھا تو پتا چلا یہاں سے چند کلومیٹر پر ہی آٹھ سو سال پرانا شہر بلتت موجودہ ہےجو کہ دیکھنے کے لائق ہے۔ دریا ہنزہ کے کنارے التت قلعہ بھی ہے جو کہ تقریباً ایک ہزار سال قدیم ہے۔ اس کے ساتھ ملحقہ رائل گارڈن آبادی سے کافی اونچائی پر واقع مشہور ایگل نیسٹ ریستوران بھی ہے جہاں سے ساری وادی کا شاندار نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں سے آدھے گھنٹے کی ڈرائیو پر عطا آباد جھیل بھی ہے۔ یہ سب دیکھنا ایک دن میں تو ممکن نہی تھا۔ لہذاٰ ہم نے دو دن مزید قیام کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہاں کی غالب آبادی شیعہ اسماعیلی مسلمانوں کی ہے۔ ان کے حاضر امام پرنس کریم آغا خان ہیں۔ ان کی نسبت سے ان کو آغا خانی بھی کہا جاتا ہے۔
یہاں کی نوے فیصد سے ذیادہ آبادی پڑھی لکھی ہے۔ یہ لوگ بہت منظم امن پسند اور پرسکون ہیں۔ مہمانوں سے ان کا رویہ بہت ہی ا چھا ہے۔ عورتیں اور لڑکیاں انتہائی پر اعتماد تعلیم یافتہ اور سلجھی ہوئی۔ ہر جگہ پر مردوں کے شانہ بشانہ مگر وقار کے ساتھ۔
کئی جگہ خواتین دوکانیں، ہوٹل اور ریستوران چلا رہی ہیں۔ ہم نے یہاں کا مشہور کھانا “چپ شرو” بھی ایک ریستوران میں کھایا۔ یہ ایک طرح کا پراٹھا ہے جس کے اندر وہاں کی دیسی مرغی کا گوشت، کچھ مصالحے اور مقامی خود رو سبزیوں کو اخروٹ کے تیل کے ساتھ ملا کر بھرا جاتا ہے۔
ہم نے ایک خاتون دکاندار سے ہی وہاں چلنے والے مقامی فون نیٹ ورک “ایس سی او” کا سم کارڈ لیا۔ سم نکال کر اس کا ریپر لاپروائی سے نیچے پھینک دیا۔ خاتون اس پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کاونٹر چھوڑ کر اٹھیں، ریپر نیچے سے اٹھایا اور کوڑے دان میں ڈال دیا۔ اپنی اس طرح کی ایک اور حرکت پر ایک اور جگہ بھی پانی پانی ہونا پڑا۔ ہم میں سے ایک دوست نے نمکو کھا کر اس کا خالی پیکٹ نیچے پھینک دیا۔ دوسرے دوست نے اسے ٹوکا جبکہ دو مقامی افراد جو سڑک کنارے بیٹھے ہماری اس حرکت کو دیکھ رہے تھے، ان میں سے ایک نے مسکراتے ہوئے کہا، کوئی بات نہیں۔ اگر آپ نہی اٹھائیں گے تو ہم اٹھا لیں گے۔
اس سارے قیام کے دوران کوئی ایک بھی بھکاری نہیں دِکھا۔ کوئی بہتی ہوئی ناک والا بچہ نظر نہیں آیا۔ کسی جگہ لڑائی جھگڑا یا بحث و تکرار نہیں دیکھی۔ خواتین کھیتوں میں کام کرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔ سکول جاتی ہوئی بچیاں اور لڑکیاں بھی خوش گپیاں کرتی ہوئی کسی ڈر اور خوف سے آزاد، سر اوپر اٹھا کر چلتی ہیں۔
پرانے شہر میں تاریخی مقامات پر ٹکٹ گھر میں اپنے کام میں مشغول لڑکیاں نظر آتی ہیں۔ قلعے کے اندر سیاحوں کی رہنمائی کے لئے بھی لڑکیاں ہی موجود ہیں۔ یہ منظر ہمارے لئے تو حیران کر دینے والا تھا۔
یہاں طرزَ زندگی سادہ ہے۔ خوراک قدرتی ہے۔ یہاں کے لوگ تمباکو، چینی اور چائے کافی کے اتنے دلدادہ نہیں۔ یہ شاندار صحت کے اچھے اطوار والے لوگ ہیں۔ گلیوں میں سڑک کنارے بزرگ اور مقامی شہری اکھٹے بیٹھے باتوں میں مشغول دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں تک آنے والے سیاح بھی ذیادہ تر فیملی والے ٹورسٹ گروپ اور غیر ملکی ہی ہوتے ہیں۔ لہذاٰ وہ اکتا دینے والی بھیڑ اور برے رویے والے لوگ یہاں کم ہی پہنچ پاتے ہیں،اسی وجہ سے یہاں بالکل ایک الگ اور پرسکون دنیا آپ کی منتظر ہے۔
اگر کوئی پر سکون خوبصورت اور پر امن جگہ دیکھنے کا شوق ہو تو آپ ہنزہ ضرور آئیے۔ آپ خوشگوار یادوں کے ساتھ لوٹیں گے۔