صنفی مساوات کے انڈیکس میں پاکستان کی تنزلی، بدترین ممالک کی فہرست میں شامل
صنفی مساوات میں پاکستان کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے اور اور پاکستان اس انڈیکس میں پچھلے سال کے مقابلے میں مزید دو درجہ تنزلی کے بعد 156 ممالک کی فہرست میں 153 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے شائع رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں صنفی فرق 0.7 فیصد پوائنٹس اضافے کے بعد 55.6 فیصد ہوچکا ہے جس کی وجہ سے یہ صنفی مساوات کے لئے بدترین ممالک میں سے ایک ہے، اس فہرست میں صرف عراق، یمن اور افغانستان ہی پاکستان سے بدتر ممالک ہیں۔
اگر اس سلسلے میں اسکور کارڈ دیکھا جائے تو اقتصادی شراکت اور مواقع میں پاکستان کو 152، تعلیمی حصول میں 144 ، صحت اور بقا میں 153 اور سیاسی طور پر بااختیار بنانے میں 98 نمبر رکھتا ہے۔
جنوبی ایشین خطے میں پاکستان آٹھ ممالک میں ساتویں نمبر پر ہے جبکہ افغانستان سب سے نیچے ہے، مجموعی صورتحال کی بات کی جائے تو رپورٹ میں تبصرہ کیا گیا ہے کہ پیشرفت ٹھپ ہوچکی ہے صنفی فرق کو کم کرنے کے لیے درکار وقت تخمینہ بڑھ کر 136.5 سال ہو گیا ہے۔
اس سلسلے میں نشاندہی کی گئی کہ کووڈ-19 کی وبا کے دوران موجودہ عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کو چار ذیلی انڈیکس میں سے دو معاشی شرکت اور مواقع اور صحت اور بقا میں بدترین 10 ممالک میں شامل کیا گیا ہے۔
معاشی شراکت اور مواقع میں ملک نے صنفی فرق میں صرف 31.6فیصد کمی کی ہے۔
پاکستان کی درجہ بندی گزرتے وقت کے ساتھ خراب ہوتی جا رہی ہے اور اعداد و شمار کے مطابق 2006 میں ملک اقتصادی شراکت اور مواقع میں 112، تعلیم کے حصول میں 110، صحت اور بقا میں 112 اور سیاسی طور پر بااختیار بنانے میں 37ویں نمبر پر تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ لیبر فورس میں 22.6فیصد کے ساتھ بہت کم خواتین شریک ہیں اور اس سے بھی کم 4.9فیصد انتظامی عہدوں پر ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ اب تک بالترتیب صرف 26.7 فیصد اور 5.2 فیصد فرق کم ہوا ہے جو پاکستان کے مرد و خواتین کی آمدن میں بڑے فرق کی نشاندہی کرتا ہے، پاکستان میں اوسطاً ایک مرد کے مقابلے میں عورت کی آمدن 16.3فیصد ہے۔
البتہ پیشہ ورانہ اور تکنیکی حوالوں سے خواتین کے کردار میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو گزشتہ سال 23.4فیصد کے مقابلے میں اس سال بڑھ کر 25.3فیصد ہو گیا ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ خواتین کو انصاف، زمین کی ملکیت اور غیر مالی اثاثہ جات یا وراثت کے حقوق میں مساوی رسائی حاصل نہیں۔
تعلیم کی بات کی جائے تو صنف کا فرق ہر سطح پر 13فیصد یا اس سے زیادہ پر موجود ہے، اس رپورٹ کے مطابق یہ فرق کم تعلیم کی سطح پر کہیں زیادہ ہے(پرائمری میں انرولمنٹ کا فرق 84.1فیصد ہے) اور وہ اعلیٰ تعلیم کی سطح پر یہ فرق کم ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ صرف 46.5 فیصد خواتین خواندہ ہیں، 61.6فیصد پرائمری اسکول میں پڑھتی ہیں، 34.2فیصد ہائی اسکول میں پڑھتی ہیں اور 8.3فیصد یونیورسٹی یا دیگر تکنیکی تعلیم ھاصل کرتی ہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ صحت اور بقا میں پاکستان میں صنفی فرق 94.4 فیصد تک پہنچ گیا ہے کیونکہ بچے کی پیدائش کے موقع پر صنف معلوم کرنے کی وجہ سے یہ شرح بڑھتی جا رہی ہے جس سے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، تقریباً 85 فیصد خواتین کو شریک حیات تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیاسی استحکام کی بات کی جائے تو پاکستان کی درجہ بندی بہتر ہے تاہم اس سلسلے میں مشاہدے میں کیا گیا ہے کہ اب تک اس سلسلے میں صرف 15.4 فیصد خلا کو پر کیا گیا ہے، صرف 4.7 سال (آخری 50 میں) ایک خاتون ملک کی سربراہی رہی ہیں لہٰذا پاکستان اس حوالے سے دنیا کے سرفہرست 33 ممالک میں شامل ہے البتہ 20 فیصد پارلیمنٹیرینز اور 10.7 فیصد وزرا خواتین کی کم نمائندگی کا عندیا دیتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے بعد جنوبی ایشیا دوسرا سب سے زیادہ خراب کارکردگی دکھانے والا خطہ ہے، صنفی 62.3 فیصد ہونے کی وجہ سے اس سلسلے میں بہت کم پیشرفت ہوئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ خطے میں بہترین اور بدتر کارکردگی دکھانے والوں کے درمیان ایک وسیع خلیج ہے جہاں بنگلہ دیش نے صنفی فرق کو 71.9فیصد تک کم کیا ہے جبکہ افغانستان نے اس کے مقابلے میں 44.4 فیصد فرق کم کیا ہے، ہندوستان کی تیسری بدترین کارکردگی ہے جس نے اس خلا کو 62.5 فیصد تک کم کیا ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صرف بھوٹان اور نیپال نے اس سال صنفی مساوات میں کم لیکن مثبت پیشرفت کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ خطے کے دیگر تمام ممالک نے انتہائی کم پیشرفت کی ہے یا بالکل کسی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔