وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ داسو ہائیڈرو پاور پلانٹ پر حملے میں افغانستان اور بھارت کی خفیہ ایجنسیز ‘این ڈی ایس’ اور ‘را’ ملوث ہیں اور ان عناصر کو پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری اور معاشی روابط ہضم نہیں ہو رہی۔
یاد رہے کہ 14 جولائی کو خیبر پختونخوا کے ضلع اپر کوہستان میں داسو ہائیڈرو پاور پلانٹ کے قریب ’حملے‘ میں 9 انجینئرز، دو فرنٹیئر کور (ایف سی) اہلکاروں سمیت کم از کم 12 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔
وزیر خارجہ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ داسو واقعے کے بعد پاکستان کے تمام ادارے حرکت میں آئے اور انہوں نے اپنی تحقیقات کا فی الفور آغاز کیا، چین سے ہمارے تعلقات کی نوعیت کے پیش نظر ہم نے چین کو صورتحال سے باخبر رکھا اور اپنی اس کوشش میں کافی حد تک کامیاب بھی رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چین کو اس واقعے پر تشویش تھی اور وہ موقع کا جائزہ لینا چاہتے تھے جس پر ہم نے ان کو خوش آمدید کہا اور ان کو جائے حادثہ پر لے کر گئے اور ان کو تمام تر پیشرفت سے آگاہ کرتے آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس واقعے کی تحقیقات کے دوران 1400 کلومیٹر طویل راستے پر تمام 36 سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کا مکمل جائزہ لیا گیا اور ہم اپنی تحقیقات میں اسی کو بنیاد بنا رہے ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ خود کش حملہ تھا اور جہاں یہ واقعہ رونما ہوا وہاں بارودی مواد کی گاڑی لے کر جانے والی گاڑی کے ڈرائیور کے انگوٹھا اور انگلی کے ساتھ ساتھ جسم کے اعضا ملے ارو ان اعضا اور وہاں سے ملنے والی دیگر اشیا کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ وہاں سے ملنے والے موبائل کے ڈیٹا کے تجزیے کے بعد ہم اس نتیجے میں پر پہنچے یہ ایک بلائنڈ کیس ہے اور اس کو حل کرنا آسان کھائی نہیں دے رہا تھا لیکن یہ مشکل اور پیچیدہ کام ہمارے اداروں نے کامیابی سے کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر کام کرنے والے ایک ہزار سے زائد افراد کی جانچ پڑتال کی گئی، سوالات کیے گئے اور تحقیق میں شامل کیا گیا، جو گاڑی اس واقعے میں استعمال کی گئی، اس کے بارے میں آج ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اس کو کو شناخت کر لیا ہے اور اس کی نقل و حرکت کو پکڑ لیا ہے کہ وہ کہاں سے آئی۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ واقعے کے ہینڈلرز تک بھی ہم پہنچ گئے ہیں اور اس کے تانے بانے جہاں سے جڑتے ہیں، واقعے میں جو گاڑی استعمال کی گئی اسے ملک میں اسمگل کیا گیا اور تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ان لوگوں کا پہلا ہدف داسو پراجیکٹ نہیں تھا بلکہ ان کی پہلی کوشش دیامر بھاشا ڈیم کے مقام پر حملہ کرنے کی تھی لیکن وہاں کامیابی نہ ملنے پر انہوں نے پھر دوسرا رخ اختیار کیا اور داسو پراجیکٹ کو نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری تحقیقات کے مطابق اس منصوبے میں افغانستان کی سرزمین کو استعمال کیا، اس کی منصوبہ بندی اور عملدرآمد میں این ڈی ایس اور را کے گٹھ جوڑ کا تعلق دکھائی دے رہا ہے اور ان عناصر کو پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری اور معاشی روابط ہضم نہیں ہو رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ عناصر اپنے عزائم میں ناکام ہوئے اور جو چاہتے تھے وہ حاصل نہ کر پائے اور اس واقعے کے بعد چین اور پاکستان نے فیصلہ کیا کہ ہم نے مل کر اس بزدلانہ حرکت کا مقابلہ کرنا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں چین گیا تھا جہاں اسٹریٹیجک ڈائیلاگ کے دوران یہ معاملہ بھی زیر بحث آیا اور اس میں یہ تبادلہ خیال کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ چین اب تک ہونے والی تحقیقات سے مطمئن نظر آیا، وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے انہیں شفاف انداز میں تمام صورتحال سے باخبر رکھا ہے اور ان سے چیزیں شیئر کی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور چین نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ تحقیقات کو اس حد تک لے کر جائیں گے کہ اس واقعے میں ملوث افراد کو ناصرف بے نقاب کیا جائے بلکہ قرار واقعی سزا بھی دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے ایسے تمام منصوبوں کی سیکیورٹی کو بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنے سیکیورٹی اقدامات پر نظرثانی کے بعد اسے بہتر کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہمارے سی پیک کے تمام منصوبے جاری رہیں گے اور بروقت مکمل کیے جائیں گے، پاکستان اور چین کی اسٹریٹیجک شراکت داری کسی منصوبہ بندی کا شکار نہیں ہو گی اور جاری رہے گی، ہمارے برادرانہ تعلقات پر ایسے منصوبے اثر انداز نہیں ہوں گے اور ہم اپنے تعاون کو مزید توسیع دینے کی کوشش کریں گے۔
اس موقع پر خیبر پختونخوا کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے ڈی آئی جی جاوید اقبال نے حملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 14جولائی کو یہ قافلہ بسین کیمپ میں اپنی رہائش گاہ سے نکل کر کام کے مقام پر جانا تھا لیکن مرکزی شاہراہ پر ان کو یہ واقعہ پیش آیا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے اس واقعے تحقیقات کی سربراہی کی اور اس دوران خفیہ اداروں اور ایجنسیوں نے ہم سے مکمل تعاون کیا۔
انہوں نے کہا کہ وقوعہ سے ہمیں حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی کے پرزے اور مبینہ خود کش حملہ آور کے اعضا ملے، اس کا فارنزک اور کیمیائی تجزیہ کیا اور اعضا کا ڈی این اے کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہزار کلومیٹر طویل راستے سے سی سی ٹی وی فوٹیج لی، 500 جی بی سے زائد کی فوٹیج لی جن کا مختلف ٹیموں نے جائزہ لیا تاکہ نقل و حرکت کا پتہ چلایا جا سکے جس کے نتیجے میں حملے میں استعمال ہونے والی ہونڈا اکارڈ گاڑی کی شناخت ہو گئی۔
ڈی آئی جی نے بتایا کہ ہونڈا اٹلس سے گاڑی کا انجن نمبر چیک کرایا لیکن کوئی کامیابی نہ ملی جبکہ وہاں سے ملنے والے موبائل فون بھی واقعے میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کے ہی تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بلائنڈ کیس میں کامیابی اس وقت ملی جب ہمیں فوٹیج ملی، گاڑی پر ‘اپلائیڈ فار’ کی نمبر پلیٹ لگی ہوئی تھی اور اس کو جب زیادہ قریب سے دیکھا تو ہمیں اس گاڑی کے ڈیلر کا پتہ چل گیا جو چمن سے تعلق رکھتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ مالکان نے گاڑی کی شناخت کر لی اور یہ واقعے سے چھ سے سات ماہ قبل ان کے پاس آئی تھی اور ایک وبائل نمبر ملا جس سے ہم اس شخص تک پہنچے جو واقعے میں ملوث تھا اور حسین نامی یہ شخص نومبر میں یہ گاڑی ے کر چلا گیا تھا۔
ڈی آئی جی جاوید اقبال نے مزید بتایا کہ اس شخص کی باریک بینی سے جانچ پڑتال کے بعد ہم ایک دوسرے مشتبہ شخص تک پہنچئے جسے ہم نے کراچی سے گرفتار کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ان دو افراد کی تفتیش سے پتہ چلا کہ اس واقعے میں ملوث چوتھا اہم شخص طارق افغانستان سے اسی واردات کو انجام دینے کے لیے آیا تھا اور تحریک طالبن سے تعلق رکھنے والا یہ شخص نے واقعے سے ایک دن قبل خوش کش بمبار سمیت گاڑی کو وقوعہ تک لے کر گیا اور ان لوگوں کی تفتیش سے تمام سہولت کاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایاز اور حسین کی تفتیش سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ معاویہ اور طارق سمیت تین افراد نے افغانستان میں بیٹھ کر یہ منصوبہ تیار کیا اور سہولت کاری کے لیے را اور این ڈی ایس کے سینئر افسران اس حوالے سے ان کی رہنمائی کررہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ سات آٹھ ماہ قبل تیار کرنا شروع کیا گیا اور اسی لیے گاڑی کئی ماہ تک چھپا ر رکھی گئی کیونکہ ان کا پہلا ہدف دیامر بھاشا ڈیم تھا۔