بجٹ 22-2021: کم سے کم تنخواہ 20 ہزار مقرر، پنشن میں 10 فیصد اضافہ ، موبائل کالز اور انٹرنیٹ پیکجز مہنگے
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے قومی اسمبلی میں مالی سال 22-2021 کا 8 ہزار 487 ارب روپے حجم کا بجٹ پیش دیا۔
اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ تقریر کا آغاز ہوتے ہی اپوزیشن بینچوں سے شور شرابہ شروع ہوگیا اور نعرے بازی کی گئی۔
بجٹ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا یہ تیسرا بجٹ پیش کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ہم معیشت کے بیڑے کو کئی طوفانوں سے نکال کر ساحل تک لے آئے ہیں، مشکلات تو درپیش ہیں مگر معیشت کو مستحکم بنیاد فراہم کردی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان مشکل حالات کا مقابلہ کیا اور کامیابی کی طرف گامزن ہیں، یہ کامیابی وزیراعظم کی مثالی قیادت کے بغیر ممکن نہیں تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں کون سے حالات ورثے میں ملے، یہ بات سب کو معلوم ہے کہ بہت زیادہ قرضوں کی وجہ سے ہمیں دیوالیہ پن کی صورتحال کا سامنا تھا۔
بجٹ تقریر پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمیں ورثے میں 20 ارب ڈالر کا کرنٹ ڈالر کا تاریخ خسارہ ملا، 25 ارب ڈالر کی درآمدات تھیں، اس عرصے کے دوران برآمدات میں منفی 0.14 فیصد جبکہ درآمدات کا اضافہ 100 فیصد اضافہ ہوا تھا۔
— فوٹو: ڈان نیوز
انہوں نے مزید کہا کہ شرح سود کو مصںوعی طور پر کم رکھا گیا تھا اور تمام قرضے اسٹیٹ بینک سے لیے گئے جس کی وجہ سے مالیاتی حجم میں شدید عدم توازن پیدا ہوا، اسٹیٹ بینک سے قرضوں کا حجم 70 کھرب روپے کی خطرناک سطح تک پہنچ گیا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 6.6 فیصد تھا جو گزشتہ 5 سالوں میں سب سے زیادہ تھا، بیرونی زرِمبادلہ کے ذخائر بڑی حد تک قرضے لے کر بڑھائے گئے تھے جو جون 2013 میں 6 ارب ڈالر تھے اور 2016 کے آخر میں بڑھتے ہوئے 20 ارب ڈالر ہوگئے تھے لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے آخری 2 سالوں میں بڑی تیزی سے کم ہوکر صرف 10 ارب ڈالر رہ گئے تھے، اس دور میں بیرونی قرضوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا تھا۔
بجٹ تقریر کے اہم نکات:
3 منٹ سے زائد دورانیے کی موبائل فون کالز، انٹرنیٹ ڈیٹا کے استعمال اور ایس ایم ایس پیغامات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی نافذ
یکم جولائی 2021 سے تمام وفاقی ملازمین کے لیے 10 فیصد ایڈہاک ریلیف کا اعلان
تمام ملازمین کی پینشن میں 10 فیصد اضافہ
کم از کم ماہانہ تنخواہ 20 ہزار روپے کردی گئی
تنخواہ دار طبقے پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔
مقامی سطح پر بنائی جانے والی 850 سی سی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی چھوٹ اور سیلز ٹیکس میں کمی
آئی ٹی کی خدمات کی برآمدات کے لیے زیرو ریٹنگ کی اجازت
پھلوں کے رس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا خاتمہ
قرآن پاک کی پرنٹنگ اور اشاعت میں استعمال ہونے والے آرٹ اور پرنٹنگ پیپرز کی درآمد پر چھوٹ
وفاقی پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے 40 فیصد اضافے سے 900 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
زراعت کے شعبے کے لیے 12 ارب روپے مختص
بجلی کی ترسیل کے لیے 118 ارب روپے مختص
موسمیاتی تبدیلیوں کے تخفیف کے منصوبوں کے لیے 14 ارب روپے مختص
کورونا ویکسین کی خریداری کے لیے ایک ارب 10 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز
کووڈ 19 ایمرجنسی فنڈ کے لیے 100 ارب روپے مختص
سندھ کو خصوصی گرانٹ کے لیے 12 ارب روپے مختص
وزیر خزانہ نے کہا کہ مسلم لیگ کے آخری دو سال میں جون 2018 تک 10 ملین ڈالر رہ گئے اس دور میں بیرونی قرضے میں اضافہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ یہ تباہی کی داستان ہے جس کے بعد معشیت کی بحالی کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود 5.5 شرح نمو کا ڈھول پیٹا گیا اور بلا سوچے سمجھے قرضے لیے گئے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ ساری ادائیگیاں ہمیں کرنی پڑیں ورنہ ملک ڈیفالٹ کرجاتا۔
انہوں نے کہا کہ ہم حقیقی منظر پیش کررہے ہیں، قبرستان میں کھڑے ہو کر قبروں کو کھودنے کے بجائے قوم کو روشنی کی طرف لے جایا جائے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے معیشت کی بحالی میں تھوڑا وقت لگا۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت مشکل فیصلے میں خوفزدہ نہیں ہوتی جس کی وجہ سے 20 ارب کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو اپریل 2019 کو 800 ملین ڈالر کا سرپلس میں تبدیل کردیا گیا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ اخراجات میں کمی اور کفایت شعاری کی پالیسی اپنائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ہم استحکام سے معاشی نمو کی طرف گامزن ہوئے ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے معاشی نمو میں ایک سال کی تاخیر ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو کورونا کی دو لہروں کا مقابلہ کرنا پڑا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ معاشی ترقی کی شرح ہر شعبے میں ریکارڈ کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کپاس کے علاوہ تمام دیگر زرعی اشیا کی پیداوار میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جبکہ صنعتی ترقی بھی غیر معمولی رہی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ بڑے صنعت شعبے میں 9 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ ماضی میں نمو منفی 10 تھی۔
انہوں نے کہا ہم کورونا وبا کے پھیلاؤ کو روکنے میں کامیاب رہے اگرچہ مارچ سے مئی کے دوران تیسری لہر کا سامنا کرنا پڑا لیکن کاروبار کی بندش سے گریز کیا۔
انہوں نے کہا کہ احساس پروگرام کے ذریعے ایک کروڑ 20 لاکھ گھرانوں کی مدد کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے سال میں ایک کروڑ 15 لاکھ گھرانوں کو امداد دی گئی۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ ترسیلات زر کی تاریخی سطح ریکارڈ کی گئی، بیرون سرمایہ کم آمدنی والے طبقے سے ہے، جس کی وجہ ان افراد کی اشیا کی خرید و فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بیرونی ترسیلات زر اس سال 29 ارب ڈالر پر پہنچے گی، یہ سب سمندر پار پاکستانیوں کا عمران خان پر اعتبار کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ فصلوں کی پیداوار میں تاریخی اضافے سے کسانوں کو 3 ہزار 100 ارب روپے کی آمدنی ہوئی جبکہ گزشتہ برس 2 ہزار 300 ارب روپے تھی، جس سے آمدنی میں 32 فیصد اضافہ ہوا۔
شوکت ترین نے کہا کہ لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں نمو سے لوگوں کے چھینے ہوئے روزگار کووڈ سے پہلے کی سطح پر بحالی کی نشان دہی ہو رہی ہے بلکہ روزگار میں مزید اضافہ ہوا ہے کیونکہ گزشتہ ایک دہائی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
انہوں نے کہا کہ خدمات کے شعبے میں اضافہ خاص طور پر ای کامرس کے ذریعے آن لائن خریداروں کے ذریعے روزگار میں بہتری کا عکاس ہے۔
انہوں نے کہا کہ کووڈ-19 کے باوجود گزشتہ ایک سال میں فی کس آمدنی میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس وصولیوں میں 18 فیصد کا زبردست اضافہ ہوا، جس کی وجہ معشیت کی غیر معمولی کارکردگی ہے، ٹیکس کی وصولی 4 ہزار ارب کی نفسیانی حد عبور کرچکی ہے۔
بجٹ میں تقریر میں انہوں نے کہا کہ ریفنڈ میں پچھلے سال کے مقابلے میں 75 فیصد زائد پیسے دیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ برآمدات ماضی کے مقابلے میں اب بہت زیادہ ہیں، اس سال برآمدات میں شاندار نمو دیکھنے میں آئی، جس میں 14 فیصد اضافہ ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ ادائیگیوں کے توازن میں قابو پالیا گیا ہے اور سرپلس ہوگیا ہے، غذائی اجناس فصلیں تباہ ہونے پر برآمد کرنا پڑی۔
شوکت ترین نے کہا کہ ترسیلات زر میں 25 فیصد کا اضافہ ہوا اور 29 ارب تک پہنچ گئی ہیں اور بہتری کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سرکاری خزانے میں 3 مہینے سے زیادہ درآمدات کے لیے کافی ہے، ڈالر 155 روپے پر ٹریڈ ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان غذائی اجناس میں خسارے کا ملک بن گیا ہے، عالمی مارکیٹ میں غزائی اجناس بلند ترین سطح پر ہے۔
شوکت ترین نے کہا کہ صوبوں کے تعاون سے زرعی پیداوار میں اضافہ اور فوڈ سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیے جامع پلان ترتیب دیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ نے برآمدات میں اضافہ ادائیگیوں کے توازن میں جاری مسلسل بحران سے نکالنے اور بار بار آئی ایم ایف پروگرام کی طرف جانے سے بچنے کے لیے نہایت اہم ہے، اس لیے ہم اس سیکٹر کے لیے کافی مراعات کا اعلان کر رہے ہیں اور ایک ایسا پلیٹ فارم بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں صنعتیں منتقل کی جائیں گی، روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں گے اور برآمدات میں اضافہ ممکن ہوسکے گا۔
ہاؤسنگ اور تعمیرات
شوکت ترین نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں کم از کم ایک کروڑ رہائشی مکانات کی کمی ہے، وزیراعظم کے ہاؤسنگ اور تعمیرات پیکج سے اس شعبے میں بہت سی معاشی سرگرمیوں اور اس شعبے سے وابستہ صنعتوں کو فروغ ملا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت اس پروگرام کے فروغ کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھارہی ہے، اس سلسلے میں پالیسی سازی اور اس کے نفاذ میں ربط کے لیے نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی قائم کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اس پروگرام کے فروغ کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھارہی ہے، اس سلسلے میں پالیسی سازی اور اس کے نفاذ میں ربط کے لیے نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی قائم کی گئی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ اس اقدام کے تحت ہاؤسنگ اسکیموں کے لیے ٹیکسوں میں رعایت کا ایک پیکج خاص طور پر واضح کیا گیا ہے، اس کے علاوہ حکومت کم آمدن والے افراد کو گھر بنانے میں مدد کے لیے 3 لاکھ روپے کی سبسڈی دے رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پہلی بار مورٹگیج فنانسنگ شروع کی گئی ہے، تمام صوبائی حکومتیں اس اقدام میں معاونت کی غرض سے اراضی کا تعین اور ہاؤسنگ منصوبوں کا آغاز اور نجی شعبے کی ہاؤسنگ اسکیموں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ بینک لوگوں کی رقوم کی فراہمی کے پروگرام میں شرکت کر رہے ہیں اور اس ضمن میں بینکوں کو 100 ارب روپے کی فراہمی کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں جس میں سے 70 ارب روپے کی فراہمی کی منظوری جاچکی ہے اور ادائیگی کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام
انہوں نے کہا کہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے لیے بجٹ 630 ارب روپے سے بڑھا کر 900 ارب روپے کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ میں 40 فیصد سے زیادہ اضافہ کیا گیا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ایس ڈی پی کے تحت ہمارا وژن بہت سادہ ہے، ہم زیادہ منافع بخش پروگرام میں سرمایہ کاری کریں گے جس سے بود و باش میں بہتری آئے گی اور کرپشن کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بار قومی اقتصادی کونسل نے 2 ہزار 135 ارب روپے کے تاریخی ترقیاتی بجٹ کی منظوری دی ہے، جو کونسل کی طرف سے گزشتہ سال کے لیے منور کردہ بجٹ سے 33 فیصد زیادہ ہے۔
شوکت ترین نے فوڈ سیکیورٹی کے حوالے سے کہا کہ ہماری حکومت نے زراعت کے شعبے کو غیر معمولی ترجیح دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ امسال گندم، چاول، گندے میں بہت زیادہ پیداوار ہوئی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ اسی وجہ سے نیشنل ایگریکلچر ایمرجنسی پروگرام کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کا مقصد لائیو اسٹاک اور زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ مویشوی، ماہی گیری، آپباشی کے شعبے کا اعادہ کیا جائے گا جبکہ ہم نے اگلے سال زراعت کے لیے 12 ارب روپے مختص کیے ہیں۔
علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ ٹڈی دل اور فوڈ سیکیورٹی پراجیکٹ کے لیے ایک ارب روپے مختص کرنے کی تجویز شامل ہے۔
آبی تحفظ
انہوں نے کہا کہ پاکستان تیزی سے پانی کی کمی کا شکار ہو رہا ہے اور وزیراعظم عمران خان چھوٹے ڈیموں کی تعیمر کے لیے خواہاں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تین بڑے ڈیمز کی تعمیرات ہماری ترجیحات میں شامل ہوں گے جس میں داسو ہائیڈروپاور پراجیکٹ پہلے میں کے لیے 57 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے 23 ارب روپے جبکہ مہمند ڈیم کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
وزیر خزانہ نے واضح کیا کہ نیم جہلم پاور پراجیکٹ کے لیے 14 ارب روپے مختص کرنےکی تجویز کی گئی ہے۔
سی پیک
وزیر خزانہ نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت 13 ارب ڈالر مالیت سے 17 منصوبے مکمل کیے جا چکے ہیں جبکہ 21 ارب ڈالر سے 21 منصوبے جاری ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ اسٹریجک نوعیت کے 26 منصوبے زیر غور ہیں جن کی مالیت 28 ارب ڈالر ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ایم ایل ون ایک اہم منصوبہ جس کی لاگت 9.3 ارب ڈالر ہے جسے تین مراحلے میں مکمل کیا جائے گا، پیکج ون کا آغاز مارچ 2020 شروع ہوچکا جبکہ پیکج ٹو جولائی 2021 اور پیکج تھری جولائی 2022 میں شروع ہوگا۔
شوکت ترین نے کہا کہ ہم ساری کی ساری بجلی صارفین کو فراہم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں اس لیے ہماری سرمایہ کاری میں ترجیحات یہ ہوگی کہ اس چیلنج پر پورا اتریں۔
انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے بجٹ میں 118 ارب روپے مختص کیے ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ کراچی میں کے ون اور کے ٹو منصوبے اور تربیلا ہائیڈرو پاور پلانٹ کی پانچویں توسیع کے لیے 16 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے پسماندہ علاقوں کے لیے خصوصی ترقیاتی پیکج شروع کیے ہیں، اس مقصد کے لیے 100 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں۔
بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ زرعی شعبے کی طلب کو پورا کرنے کے لیے آبی وسائل میں بہتری ہمارا نصب العین ہے، جس کے لیے ساڑھے 19 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کے پی ضم شدہ اضلاع کی ترقی کے لیے 54 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جن میں 30 ارب روپے اگلے 10 سالہ ترقی منصوبے کے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پر حکومت یقین رکھتی ہے، اتھارٹی کے پاس مختلف مراحل میں 50 منصوبے موجود ہیں جن کی مجموعی لاگت 2 ہزار ارب روپے، جس میں ریل، صحت، لاجسٹک اور دیگر منصوبے شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 710 ارب روپے کے مزید 6 منصوبے رواں سال شروع ہوں گے، جس کے لیے حکومت وائبلیٹی گیپ فنڈز کی مد میں 61 ارب روپے ادا کرے گی۔
موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج کا مقابلہ
ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے بلین ٹری سونامی منصوبہ ہے اور مالی سال میں 14 ارب روپے مختص کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سماجی شعبے میں وزیراعظم ترجیح دیتے ہیں، اس میں صحت، تعلیم، پائیدار ترقی کے اہداف، موسمیاتی تبدیلی اور دیگر شعبہ جات ہیں اور اس مد میں پی ایس ڈی پی میں 118 ارب روپے کے فنڈ مختص کر رہے ہیں۔
شوکت ترین نے کہا کہ وسائل بالخصوص ریونیو کو موبلائز کرنا ہماری معاشی پالیسی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، ٹیکس رجیم کو ٹیکسٹائل ہماری معاشی پالیسی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، ٹیکس نظام پر اعتماد کی کمی کی وجہ سے یہ اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔
مجوزہ ٹیکس پالیسی نئے ٹیکس گزاروں کی نشاندہی کے بعد ٹیکس نیٹ میں اضافہ، ٹیکس استثنی اور مراعات سے متعلقہ شقوں کا بتدریج خاتمہ کرے گی اور ٹیکس شرح میں کمی پر زور دے گی۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ ٹیکس گزاروں کا تحفظ بھی کیا جائے گا تاکہ ان کے واجب الادا ٹیکس پر مزید کوئی بوجھ نہ ڈالا جائے۔
مجوزہ ٹیکس پالیسی مندرجہ ذیل اصولوں پر مبنی ہوگی۔
1۔ سیلف اسسیسمنٹ اسکیم کو اس کی اصل شکل میں بحال کیا جائے گا کہ ہر شخص اپنا ٹیکس گوشوارہ خود بنا کر ایف بی آر کو بھیجے گا، اگر ایف بی آر کے پاس اس کے خلاف کوئی مصدقہ معلومات نہ ہوں تو گوشوارے میں درج تمام ٹیکس گوشوارے اسیسمنٹ آرڈرز سمجھے جائیں گے بصورت دیگر گوشوارے کو آڈٹ میں بھیجا جائے گا۔
2۔ خود تشخیصی نظام کے تحت گوشواروں کو صرف آٹو میٹڈ رسک بیسڈ سیلیکشن پروسیجر کے ذریعے منتخب کیا جائے گا۔
3۔ ای آڈٹ سسٹم کے تحت آڈٹ کے لیے باہر سے آڈیٹرز کا انتخاب کیا جائے گا۔
4۔ جان بوجھ کر چھپائی گئی معلومات یا ٹیکس چوری مجرمانہ تصور ہوں گی جس پر جیل جانے کی سزا دی جائے گی۔
5۔ ٹیکس دہندگان کو ہراساں کو کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
6- انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس، ٹیکس جمع کرنے کے لیے پرائمری انسٹرومنٹس ہیں۔
7- ٹیکس مشینری کو ٹیکس چوری کرنے والوں اور ٹیکس نیٹ میں شامل نہ ہونے والوں کے خلاف مزید متحرک کیا جائے گا، اس ضمن میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا تاکہ ٹیکس گزاروں کی نشاندہی ہوسکے اور انسانی عمل دخل کا خاتمہ ہو۔
8۔ ٹیکسیشن میں پروگریسیویٹی کو مزید تقویت دی جائے گی اور امیروں کو واجب الادا ٹیکس ادا کرنا ہوگا جبکہ طاقت ور گروپس کوملنے والی ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ کیا جائے گا۔
9۔ تنخواہ دار طبقے پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔
10- ٹریک اینڈ ٹریس کے نظام کو ابتدائی طور پر 4 صںعتوں کے لیے شروع کیا جائے گا لیکن بعد میں تمام صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں میں استعمال کیا جائے گا۔
11- اس ضمن میں حکومتی حکمت عملی کا بنیادی جزو جی ایس ٹی نیٹ میں اضافہ کرنا ہے اور تمام ریٹیل اور ہول سیل ٹرانزیکشنز کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے گا جو ڈیجیٹل ادائیگی کے نظام سے منسلک ہیں، اس سلسلے میں ایف بی آر کے پوائنٹ آف سیل سے منسلک ہونے میں تاجروں کی مدد کی جائے گی۔
12۔ صارفین کے لیے ہر ماہ قرعہ اندازی کے بعد سیلز ٹیکس رسیدوں پر انعامات تقسیم کیے جائیں گے۔
13۔ پاکستان سنگل ونڈو پراجیکٹ کے آغاز سے درآمدات اور برآمدات کی کلیئرنس ایک پورٹل کے ذریعے ہوگی جس سے کارگو کلیئرنس جلد از جلد ممکن ہوگی۔
14۔ خدمات پر سیلز ٹیکس میں ہم آہنگی کے لیے صوبوں کی مشاورت کے بعد عملی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اور ٹیکس نظام کو سادہ بنانے کے لیے نیا سادہ ٹیکس ریٹرن فارم، ٹیکس کوڈ اور قوانین لائے جارہے ہیں۔
قبل ازیں وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس اسلام آباد میں ہوا جس میں بجٹ کی تجاویز پر تبادلہ خیال اور منظوری دی گئی۔