حدیبیہ پیپر ملز کا قصہ اور شریف فیملی کی جائیداد
تحریر: طاہر کلاسرہ
جب سے سپریم کورٹ میں حدیبیہ پیپرز ملز کیس دوبارہ کھلا ہے تو سب لوگوں کو تجسس ہے کہ آخر یہ ہے کیا تو میں نے یہ سوچا کہ اس پر لکھا جائے یہی اصل کہانی ہے شریف خاندان کو مالدار بنانے کی اورکس طرح لوٹ مار کی گئی۔ حدیبیہ پیپر ملز کا قصہ 1997میں اس وقت شروع ہوا جب نوازشریف دوسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو شریف فیملی کی حدیبیہ پیپلز مل خسارے میں چل رہی تھی۔ اس کے کل اثاثہ جات کی ویلیو صرف 9کروڑ57لاکھ خسارہ80کروڑ سے بھی زائد ہوچکا تھا۔ حدیبیہ پیپرز مل کے نام پر پاکستان کے سرکاری بینکوں سے پبلک منی سے کروڑوں کا قرض لیا جوکہ بعد میں خسارے کی وجہ سے قرضہ واپس ہی نہ کیا ۔پھر چند مہینوںمیں اس کمپنی کے اکاﺅنٹس میں تقریباً ساڑھے 64کروڑ کی ایک بہت بڑی ٹرانزیکشن نظرآئی جسے شیر منی ڈیپازٹ کی کیٹیگری میں دکھایا گیا چونکہ حدیبیہ پیپرز مل کو بنایا بھی اس مقصد کےلئے گیا تھا اس کے ذریعہ قرضہ لے کر خسارے کی آڑ میں معاف کرالیے جائیں اور پھر اس کمپنی کے اکاﺅنٹس کو استعمال کرتے ہوئے منی لانڈرنگ کے ذریعہ کالے دھن کو سفید کیا جاسکے اس لیے نوازشریف نے اپنے پورے خاندان کو اس کا شیر ہولڈر بنایا۔
1997ءمیں کی گئی 64کروڑ کی رقم ان کے گلے پڑگی اور آج اگر پانامہ اور لندن فلیٹس سے بری بھی ہوگئے تو حدیبیہ پیپر والا کیس ان پر ایک لٹکتی ہوئی تلوار ہے جس نے نواز اورشہبازشریف بھی نااہل ہوسکتے ہیں۔ اسحاق ڈار نے 2000ءمیں جمع کرائے گئے اپنے بیان حلفی سے اپنی مکمل تفصیلات دی تھیں جوکہ میں یہاں پر بیان کررہا ہوں۔ اسحاق ڈار اوراس کے اسسٹنٹ کی بیوی کے بھانجے کے ذریعہ لندن میں مقیم قاضی فیملی کے پاسپورٹ کاپیوں کی بنیاد پرکئی بینکوں میں قاضی فیملی کے افراد کے نام اکاﺅنٹس کھولے گئے پھر ان میں کالے دھن کی رقم ڈالی گئی جو کئی ملین ڈالرز بنتی تھی پھر سعید احمد نامی اسحاق ڈار کے ایک پرانے پارٹنر اور موجودہ صدر سٹیل بینک کے کام پر اکاﺅنٹ کھولا گیا جعلی ناموں سے اکاﺅنٹس کھولے گئے اور رقم ان اکاﺅنٹس میںگھومتی رہی جب کافی ٹرانزیکشنز ہوگئی تو پھر ان سب اکاﺅنٹس سے رقم نکال کر سعید احمد کے اکاﺅنٹس میں ڈال دی گئی۔ یہ منی لانڈرنگ کا ایک طریقہ تھا اس کے ذریعہ سرکلر ٹرانزکیشن سے ریگولیٹرز کو چکمہ دیا گیا کہ وہ اصل سورس تک نہ پہنچیں سعید احمد کے اکاﺅنٹس میں جب اچھی خاصی رقم گئی تو پھر اس رقم کو فرد ضمانت رکھ کر ہجویری حصاربہ کے نام پر قرض لیا گیا یہ اسحاق ڈار کی کمپنی تھی جو 90کی دہائی میں ڈار کے نام سے رجسٹر تھی جب ہجویری حصاربہ کو قرض کی رقم مل گئی پھر اس قرض کو حدیبیہ پیپر مل کے نام پر ٹرانسفر کرکے64کروڑ حدیبیہ مل کے اکاﺅنٹس میں ڈال دیا گیا یوں ایک کالا دھن جو سعید کے اکاﺅنٹس میں تھا وہ بینک قرض کی شکل میں ایک سفید دھن بن چکا تھا جسے شریف فیملی نے اپنی ذاتی کاروبار کےلئے استعمال کرنا شروع کردیا۔
حدیبیہ خسارہ پر ہی چلتی رہی اورحکومت میں رہ کر اس کے قرض معاف کروالیے گئے۔ سعید احمد کے اکاﺅنٹ میں زرضمانت رقم ریلیز ہوگئی جسے فارن کرنسی کی مد میں بیرون ملک ٹرانسفر کردیا گیا۔ یوں جو کالا دھن موٹروے، پیلی ٹیکسی سکیم کے ذریعے سے اکٹھا کیا گیا جو بیرون ملک چلا گیا، اس پیسہ کو ہضم کرلیا اور قومی بینکوں سے قرض لے کر معاف بھی کروالیالیکن قدرت بھی ہر ملزم سے کوئی غلطی کروادیتی ہے۔ نوازشریف سے بھی 64کروڑ کی رقم حدیبیہ پیپر ملز کے اکاﺅنٹس میں دکھایا گیا اس کی غلطی کیوجہ سے وہ پکڑے گئے اور اسحاق ڈار بھی اسی میں وعدہ معاف گواہ بنے تھے۔
یہ تھے وہ ذرائع جس سے شریف خاندان کے بیرون ملک جائیدادیں بنائیں اب اگر ہم آپ کو بیرون ملک ان جائیدادوں کی تفصیل بتائیں تو آپ لوگ حیران رہ جائیں گے اور سوچیں گے۔ یہ ہے ہمارے حکمران جو امیر المومنین بنتے ہیں اور ہمارے حکمران ہیں لندن پارک لین کے4فلیٹس جن کی ملکیت سے 25سال سے انکار کررہے ہیں آج اقرار کررے ہیں اس کے علاوہ لندن میں آکسفورڈ میں33اور 25منزلہ سواسیزر پوائنٹ کے نام سے دو ٹاورجن کی ملکیت کئی سو ملین پاﺅنڈ ہے۔ ہائیڈپارک لندن میںدنیا کے مہنگے ترین فلیٹس جن کی مالیت150ملین پاﺅنڈ ہیں بعض کے جنوبی علاقہ میں340مختلف شیریںہیں پالک جس کی مالیت92ملین پاﺅنڈ ہے۔ فلیٹ نمبر8پونڈ فلیٹس ڈیلیو2مالیت ساٹھ لاکھ پاﺅنڈ فلیٹ نمبر9مالیت 9لاکھ پاﺅنڈ10ڈیوک فلیٹس ڈیوک سٹریٹ لندن ڈیلیو مالیت15ملین پاﺅنڈ فلیٹ نمبر12اے118پارک میںلندن ایس ڈبلیو 1مالیت5لاکھ پاﺅنڈ11گھرسنٹر پلسل، لندن ڈبلیو ون مالیت انمول ان کے علاوہ عین بکنگ برمنگم پیلس کے قریب جائیداد جس کی مالیت45ملین پاﺅنڈ ہے سنٹرل لندن کے اس پاس 80ملین پاﺅنڈ کی جائیدادیں ہیں کچھ عرصہ پہلے جس نواز لندن رئیل اسٹیٹ میں ایک ہی وقت میں1200ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی اس کا ذکر میڈیا پر بھی آیا نوازشریف صاحب جس راﺅنڈ میں رہائش پذیر ہیں 25000ہزار کینال پر محیط ہے۔
مری میں ایک گھر ہے مال روڈ پر ایک بنگلہ ہے شیخوپورہ کے 88کنال کی زمین لاہور اپر مال پر مکان1700کنال کی مختلف جائیدادیں بھی جہاں تمام گھروں کا سالانہ بجٹ27کروڑ بنتا ہے۔ ان کے علاوہ سعودی عرب، دبئی، سپین اور استنبول میں بھی رہائش گاہیں ہیں اور انکارئیل اسٹیٹ کا کاروبار پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے اتفاق گروپ اور شریف برادران دو کمپنیوں کے مالک ہیں جس کی ذیلی کمپنیوں میں کم ازکم 11شوگر ملز اور15انڈسٹریل اسٹیٹ بھی رمضان شوگرملز، رمضان انرجی لمیٹیڈ، شریف ایگری فارمز شریف پولٹری فارمز شریف ڈیری فارمز، شریف فیڈ ملز رمضان ٹرانسپورٹ محمد بخش ٹیکسٹائل ملز حمزہ بینکنگ ملز،حدیبیہ انجینئرنگ ، حالد سراج انڈسٹریز، برکت ٹیکسٹائل ملز حسیب وقاص رائس ملز اور بھی کئی میکریز اور ملز شامل ہیں ۔
یو اے ای میں ایک سٹیل ملز اتفاق ٹیکسٹائل ملزم سعودی عرب اور جدہ کی اسٹیل ملز یہ بھی سننے میں آرہاہے۔ نیوزی لینڈ کے سرکاری سٹییل کمپنی کے49شیئرز نوازشریف کے نام پر ہیں وہ جائیدادیں جن کا کچھ پتہ لگ سکا ہے باقی کتنی ہیں وہ تو اللہ ہی جانتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ لوگ اتنی جائیدادیں لے کرکہاںجائیں گے یہ صرف نوازشریف نہیں بلکہ شاید اگلے کالم میں میں آپ کو زرداری صاحب جہانگیر ترین اور کئی اور بڑے بڑے سیاستدان کتنی جائیدادیں رکھتے ہیں جوکہ باری باری بناتی جائیں گی ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ٹیکس کا ایک روپہی بھی نہیں دیتے صرف تنخواہ دار طبقہ یا غریب تاجر دیتا ے باقی یہ ارب پتی لوگ ٹیکس دینے سے ہی انکاری ہیں اور بلکہ غریب عوام کے ٹیکس پر عیاشی کرتی ہے میرا ایک دوست بتارہا تھا کہ بینک میں رقم رکھوانے کے بعد جب رقم نکلوائی جائے تو لاکھ کے پیچھے 600روپے ٹیکس اور اگر دس لاکھ نکلوائے تو 6000ہزار حکومت کو ٹیکس دیں جو غریب آدمی ہیں کمیٹیاں جمع کرکے بینک میں رکھی تھیں اب وہ نکلوانے گئے حکومت کو ٹیکس دے ۔ گاڑی لے تب ٹیکس، اس پر بھی بات ہوگی ہوٹل میں کھانے پر ٹیکس، یہ سادہ اور غریب عوام کدھر جائے زرداری صاحب نے موبائل جگا ٹیکس25روپے100کے بیلنس یہ کاٹا جو آج تک قائم ہے۔ یہ سب لوٹ مار عیاشی غریب عوام کی جیب سے کی جارہی ہے اور کوئی ان سے پوچھنے والا بھی نہیں لیکن ان سب لٹیروں کو یہ نہیں پتہ ان سب چیزوں کا حساب انہیں دینا پڑے گا۔ روز آخرت بھی اور دنیا میں بھی اور یوم حساب اوریوم پکڑ کبھی بھی ہوسکتی ہیں شاید ان لٹیروں کو ان کی جائیدادیں ان کا مال بھی نہ بچا پائے گا کیونکہ یوم حساب اٹل ہے اور وہ ایک دن آکے ہی رہنا ہے سب کےلئے۔
٭٭٭٭
Leave a Reply