سپریم کورٹ ، سیاستدان اور احتساب
تحریر:طاہر کلاسرہ
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہنا تو نہیں چاہتے تھے مگر بات نکلی ہے تو بتادیتے ہیں کہ عدالت کہ باہر جو کچھ ہورہا ہے اس پر انتہائی صبر وتحمل کا مظاہرہ کررہے ہیں داد دیں کہ ہم سب ہنستے ہیں لیکن انصاف سے نہیں ہٹتے کمال دیکھیے باتیں ہورہی ہیں مگر ہم ٹس سے مس نہیں ہورہے ، دنیا میں اجر ملے نہ ملے صبروتحمل پر آخرت میں اجر ضرور ملے گا۔ ہماری شان اور انصاف میں کمی نہیں آئے گی ایسی باتوں اور واقعات کو مقدمات پر اثر انداز نہیں ہونے دینگے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی کےلئے اپنے کام میں ڈنڈی کیوں ماریں ججز اور عدلیہ کو جو عزت ملی اس سے زیادہ کوئی کیا دے سکتا ہے عدلیہ اورقانون کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہاہے کیا یہ حب الوطنی ہے؟ریمارکس انہوںنے عمران خان کے کیس میں دئیے چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا چاہے کچھ بھی ہوجائے انصاف کا دامن نہیں چھوڑیں گے۔ دوسری طرف چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ایک تقریب میں کہا کہ جج طاقتور کے خلاف فیصلہ کرتے ہوئے نتیجہ کا نہ سوچیں آپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمیں اپنے لینے نہیں بلکہ ادارہ اور ملک کی فلاح وبہبود کےلئے سوچنا چاہیے لیڈرشپ کو باصلاحیت اور مصنف کو بے خوف ہونا چاہیے۔ہرفرد کا معاشرہ میں رول ہے المیہ یہ ہے ہم میں سے کوئی بھی اپنے حصے کا کام کرنے کےلئے تیار نہیں۔ نظام کو بدلنے کےلئے ٹیکنالوجی کا سہارا لے رہے ہیں یہ باتیں بہت اچھی ہیں لیکن لوگوں کو انصاف کے حصول کےلئے بہت تکالیف ہیں خصوصی طور پر ضلعی عدلیہ جہاں سے انصاف کا عمل شروع ہوتا ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور عدلیہ کو مقدس گائے بنانے کی بجائے لوگوں کو یہ بتانے کی بھی ضرورت ہے کہ ان کے خلاف بھی ایکشن ہوتا ہے اور ججز کو نوکریوں سے بھی نکالا جاتا ہے اور ان کو تلقین بھی کی جائے کہ صبر وتحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں میرے والد مہر منظور الٰہی کلاسرہ سینئر ترین ایڈووکیٹ ہیں ان کا بھی کہنا ہے کہ اگر ضلعی عدلیہ انصاف کو یقینی بنائیں اور ڈنڈی نہ مارے اور کرپشن سے پاک ہوجائے تقریباً 80فیصد انصاف کا مرحلہ مکمل ہوجائے گا ۔ ججز اپنا بھی احتساب کریں۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا جس سے مسائل جنم لیتے ہیں اور انصاف کے عمل میں رکاوٹ پیش ہوتی ہے ۔مجھے امید ہے چیف جسٹس اس عمل کو بھی یقینی بنائیں گے اور اعلیٰ عدلیہ بھی اپنا موثر کردار ادا کرے گی عدلیہ خود نہیں بولتی بلکہ اس کے فیصلے بولتے ہیں۔ اور اس سلسلے میں سیاستدان سے بھی گزارش ہے کہ وہ عدلیہ کو متنازعہ بنانے کی بجائے اسے مضبوط بنائیں اور غلط فیصلوں کی نشاندہی کریں ادھر میاں نوازشریف نے اعلیٰ عدلیہ کے خلاف ایک طرح کا اعلان جنگ کیا ہوا ہے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ عدلیہ آمروں کو تحفظ دیتی ہے بھاگنے والے نہیں ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عدالتوں کا پہلا بھی سامنا کیا ہے اب بھی کریں گے۔ جنوںنے بھاگنا ہے وہ بھاگ گئے ہیں ہم سرخرو ہوں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ قانون اور انصاف شرمندہ ہے گویا وہ میاں صاحب کسی طور پر اپنے خلاف ہونے والے فیصلہ کو تسلیم نہیں کررہے ان کی صاحبزادی مریم نواز کا کہنا ہے کہ دلیل نہ ہونے پر منصف مخالف وکیل بن گئے ۔ وہ اس انصاف سے مطمئن نظر نہیں آرہے۔ انصاف ان کو صرف وہ نذر آتا ہے جو ان کے حق میں ہو۔ عدلیہ پر تنقید کرنے کے باوجود آخر کار ان کو دوبارہ اسی عدالت اعلیٰ کا دروازہ کھٹکٹھانا پڑا۔ تو پھر تنقید کی کیا ضرورت ہے۔ انہوںنے اپنے خلاف دئیے گئے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دی جس پر اعلیٰ عدلیہ نے اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے۔ جس پر ایک محاورہ یاد آگیا ہے۔( نمازاں بخشاوان گئے تے روزے وی لے آئیں)نظرثانی کی درخواست پر سپریم کورٹ نے کہا کہ نوازشریف نے عدلیہ کو بے وقوف بنایا عدالت کا یہ کہنا تھا پارلیمنٹ و عوام حتی کہ عدالت کو بھی سچ نہیں بتایا ہم نے غیر متنازع فیصلہ دیا تاہم احتساب عدالت اپنے فیصلہ میں آزاد ہے۔ سپریم کورٹ کے اس ریمارکس کے بعد میرے خیال میں کوئی گنجائش نہیں بچی میاں نوازشریف صاحب کو شاید پتہ نہیں کہ فیصلے عدالتی نظام میں ہمیشہ کےلئے محفوظ ہوجاتے ہیں اور تاریخ کاحصہ بن جاتے ہیں اورعدالت نے ان کو جھوٹا قرار دیا ہے اور ریمارکس دئیے کہ انہوں نے عدلیہ کو بے وقوف بنایا ہے یہ فیصلہ تو ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے گا۔ اگرچہ بے وقوف عوام شاید یہ سب کچھ بھول جائے مگر فیصلے قائم رہیں گے غلط یا صحیح اسی کا فیصلہ وقت کرے گا مگر اب تک حالات ان کے خلاف جارہے ہیں اور ان سے غلطیوں پرغلطیاں ہورہی ہیں اور وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف محاذ کھڑا کرکے اپنے آپ کو مزید مسائل سے دوچار کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ کورٹ میں حدیبیہ پیپرز مل کا کیس بھی کھل گیا ہے آنے والے وقتوں میں اس کا کیا فیصلہ ہوتا ہے لیکن شریف برادران کےلئے پریشانیاں مزید بڑھ سکتی ہیں آگے جو دکھائی دے رہاہے احتساب کا عمل تیزہوگا کئی برج اس کی لپیٹ میں آئیں گے اس موقع پر توقع کی جارہی ہے کہ احتساب کا عمل سب پر لاگو ہو اور اس باریک چکی میں سب پسیں اس کا فیصلہ بھی آنا والا وقت کرے گا لیکن عوام کو ایک امید سی بندھی ہوئی ہے کہ اب ملک سے شاید کرپٹ عناصر کا خاتمہ ہو۔ سیاستدانوں نے بھی یہ تہیہ کرلیا ہے کہ اور کوشش بھی کررہے ہیں کہ ایسی قانون سازی کی جائے کہ احتساب کا عمل رک جائے اور نیب کو ختم کیا جائے اورکوئی اورراستہ نکالاجائے ان کی یہ بھی کوشش ہے کہ اب کی بار عدلیہ اورجنرل بھی احتساب کی زد میں آئیں۔ بیوروکریسی تو ویسے ہی سیاستدانوں کو کرپٹ کرنے میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں یوں توپتہ نہیں سیاستدان اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔لیکن ایک احتساب کاخوف ان پر سوار ضرور ہے ایک یہی اس چیز کی دلیل ہے کہ ملک میں قانون کی بالادستی قائم ہونے جارہی ہے لیکن کسی ایک فرد واحد یا پارٹی کا احتساب بھی ٹھیک نہیںبے رحمانہ احتساب کیا جائے چاہے اس کےلئے کسی قسم کی بھی قربانی دی جائے اب کی بار عوام نے امید بندھی ہے اسے نہ ٹوٹنے دیا جائے۔ عوام خود بھی اپنا احتساب کرے اور ان لٹیروں کو رد کرکے صاف ستھری قیادت کو سامنے لائے۔جو ملک اور عوام کی بہتری کےلئے کام کریں اور اس ملک کو آگے لے کر چلے نوجوان نسل کو بھی متحرک کرنے کی ضرورت ہے تاہم ایک بات تو طے ہے کہ تبدیلی کی لہر توچل پڑھی۔ اچھے کو اچھا اور برے کو برا کہنا شروع کردیا گیا ہے اور یہی اس ملک کے لوگوں کی جیت ہے اوریہی عوام کی جیت ہے۔
Leave a Reply