سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کو منظور کرلیا۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کی، جہاں جسٹس عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک حکومتی وکیل فروغ نسیم کے دلائل پر جواب الجواب دیے۔

جس کے بعد عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا اور 4 بجے کے بعد مختصر فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواست کو منظور کرلیا۔

عدالت عظمیٰ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف جاری کیے گئے شوکاز نوٹس بھی واپس لے لیے۔

سپریم کورٹ کے 10 رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے مختصر فیصلہ سنایا، جس میں تین ججز نے اضافی نوٹ لکھا جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصلے سے اختلاف کیا، اس کیس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

عدالت کی جانب سے یہ فیڈرل بورڈ آف (ایف بی آر) 7 روز میں جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کو نوٹس جاری کرے، نوٹس ہر پراپرٹی کا الگ الگ بھجوایا جائے، ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ نوٹس جسٹس عیسیٰ کی سرکاری رہائش گاہ کے پتے پر بھجوایا جائے اور ایف بی آر معاملے کو التوا میں نہ ڈالے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ قانون کی کارروائی بنتی ہو تو سپریم جوڈیشل کونسل مجاز ہوگی، چیئرمیں ایف بی آر اپنے دستخط سے رپوٹ رجسٹرار سپریم کورٹ کو جمع کرائیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس مئی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کیے گئے ریفرنس میں الزام لگایا تھا کہ انہوں نے 2011 سے 2015 کے دوران لندن میں لیز پر اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام پر جائیدادیں حاصل کیں تھیں لیکن انہیں ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا تھا۔ بعدازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الزامات کا مقابلہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ براہ راست یا بالواسطہ فلیٹس کے بینیفشل اونر نہیں ہیں۔

اس درخواست کے ذریعے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں استدعا کی تھی کہ کچھ طاقتیں انہی کسی نہ کسی طریقے سے آئینی عہدے سے ہٹانا چاہتی ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ صدر مملکت عارف علوی نے ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے قبل اپنی آزادانہ رائے قائم نہیں کی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ وزیراعظم، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کے سیکشن 116 (بی) کو توڑ مروڑ کر پیش کیا تھا اور غلطی سے اسے ان کی اہلیہ اور بچوں پر لاگو کردیا جبکہ اس قانون کا اطلاق صرف منحصر اہلیہ اور ان بچوں پر اطلاق ہوتا ہے جو چھوٹے ہوں اور والد پر انحصار کرتے ہوں۔

درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سرکاری ایجنسیوں بشمول ایف آئی اے نے خفیہ طور پر درخواست گزار اور ان کے خاندان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 4 اور 14 کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے معلومات حاصل کیں اور انہیں تحقیقات سے متعلق اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا نہ ہی انہیں جواب دینا کا کوئی موقع فراہم کیا گیا۔

جسٹس قاضیٰ نے عدالت سے درِخواست کی تھی کہ حکومت کی جانب سے ان کے خاندان کی جائیدادوں کی تحقیقات کے لیے تشکیل کردہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو غیرقانونی قرار دیا جائے، ساتھ ہی  انہوں نے کہا تھا کہ درخواست گزار جج اور ان کے اہل خانہ کے خلاف تحقیقات غیر قانونی تھیں۔

 گزشتہ سال مئی سے رواں سال جون تک تقریباً 13 ماہ چلنے والے اس کیس کی 40 سے زیادہ سماعتیں ہوئیں جس کے دوران ایک اٹارنی جنرل نے ججز سے متعلق بیان پر نہ صرف استعفیٰ دیا بلکہ فروغ نسیم بھی کیس میں حکومت کی نمائندگی کرنے کے لیے وزیرقانون کے عہدے سے مستعفی ہوئے، یہی نہیں بلکہ یہ کیس تاریخی لحاظ سے اس لیے بھی اہم رہا کیونکہ اس میں تاریخ میں پہلی مرتبہ حاضر سروس جج جسٹس عیسیٰ عدالت میں پیش ہوئے۔

گزشتہ روز حکومتی وکیل فروغ نسیم نے اپنے دلائل مکمل کیے تھے جس پر عدالت نے ان سے تحریری معروضات جمع کروانے کا کہا تھا جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا۔

عدالت عظمیٰ میں ہونے والی سماعت

آج (جمعہ) کو کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سب سے پہلے وفاقی حکومت کے وکیل فروغ نسیم نے کچھ دستاویزات جبکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس ریکارڈ کی دستاویز سربمہر لفافے میں عدالت میں جمع کروائیں۔

مزید یہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کی جانب سے بھی زرعی زمین اور پاسپورٹ کی نقول عدالت میں جمع کروائی گئیں۔

اس پر سربراہ بینچ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم ابھی اس لفافے کا جائزہ نہیں لیتے اور نہ ہی اس پر کوئی آرڈر پاس کریں گے۔

‏انہوں نے کہا کہ معزز جج (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) کی اہلیہ تمام دستاویز ریکارڈ پر لاچکی ہیں، آپ اس کی تصدیق کروائیں، ہم ابھی درخواست گزار کے وکیل منیر اے ملک کو سنتے ہیں۔

سمجھ نہیں آرہا حکومت کا اصل میں کیس ہے کیا، منیر اے ملک

ساتھ ہی عدالت نے منیر اے ملک کو ہدایت کی کہ وہ اپنے دلائل کو مختصر رکھیں، جس پر وکیل جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ ساڑھے 10 بجے تک اپنے دلائل مکمل کردوں گا۔

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال بولے کے عدالت پہلے بھی آپ کو دلائل کے لیے 21 دن دے چکی ہے۔

منیر اے ملک نے اپنے جواب الجواب میں کہا کہ افتخار چوہدری کیس میں سپریم جوڈیشل کونسل پر بدنیتی کے الزامات تھے، ‏سپریم جوڈیشل کونسل نے بدنیتی پر کوئی فیصلہ نہیں دیا تھا، توقع ہے کہ مجھے جوڈیشل کونسل کی بدنیتی پر بات نہیں کرنا پڑے گی۔

منیر اے ملک نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہا حکومت کا اصل میں کیس ہے کیا، فروغ نسیم نے کہا ان کا اصل کیس وہ نہیں جو ریفرنس میں ہے، برطانوی جج جسٹس جبرالٹر کی اہلیہ کے خط اور ان کی برطرفی کا حوالہ دیا گیا، جسٹس جبرالٹر نے خود کو اہلیہ کی مہم کے ساتھ منسلک کیا تھا۔

بدقسمتی سے فروغ نسیم غلط بس میں سوار ہوگئے ہیں، وکیل جسٹس عیسیٰ

انہوں نے کہا کہ ‏جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کبھی اہلیہ کی جائیدادیں خود سے منسوب نہیں کیں، الیکشن اور نیب قوانین میں شوہر اہلیہ کے اثاثوں پر جوابدہ ہوتا ہے۔

اپنے جواب الجواب میں منیر اے ملک نے کہا کہ فروغ نسیم نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ آنے میں دیر کر دی، ‏بد قسمتی سے فروغ نسیم غلط بس میں سوار ہوگئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ایف بی آر جانے کے بجائے سپریم جوڈیشل کونسل آگئی، ایف بی آر اپنا کام کرے ہم نے کبھی رکاوٹ نہیں ڈالی۔

منیر اے ملک بولے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی اور عدلیہ کی عزت کی خاطر ریفرنس چیلنج کیا، ‏چاہتے ہیں کہ عدلیہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے احکامات اور شوکاز نوٹس میں فرق ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس عیسیٰ کے وکیل نے ریفرنس میں لگائے گئے جائیدادوں کے الزامات پر کہا کہ لندن کی جائیدادوں کی تلاش کے لیے سرچ انجن 192 ڈاٹ کام کا استعمال کیا گیا، اس پر سرچ کرنے کے لیے ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آن لائن ادائیگی کی رسید ویب سائٹ متعلقہ بندے کو ای میل کرتی ہے، ضیاالمصطفیٰ نے ہائی کمیشن کی تصدیق شدہ جائیداد کی تین نقول حاصل کیں، ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ جن سیاسی شخصیات کی جائیدادیں سرچ کیں اس کی رسیدیں بھی ساتھ لگائی ہیں، حکومت رسیدیں دے تو سامنے آجائے گا کہ جائیدادیں کس نے سرچ کیں۔

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ صحافی عبدالوحید ڈوگرنے ایک جائیداد کا بتایا تھا، تاہم اگر سرچ انجن پر اثاثہ جات ریکوری یونٹ (اے آر یو) نے جائیداد تلاش کیں تو رسیدیں دے دیں۔

اس پر عدالتی بینچ کے رکن جسٹس فیصل عرب بولے کے اے آر یو نے بظاہر صرف سہولت کاری کا کام کیا ہے۔

حکومت فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ لکھنے والے جج کو ہٹانا چاہتی ہے، منیر اے ملک

سماعت کے دوران منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ حکومت کہتی ہے کہ دھرنا کیس کے فیصلے پر ایکشن لینا ہوتا تو دونوں ججز کے خلاف لیتے لیکن حکومت صرف فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ لکھنے والے جج کو ہٹانا چاہتی ہے۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 6 فروری 2019 کو [**فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ**][1] سنایا تھا اور اس کیس میں عدالت عظمیٰ نے حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، خفیہ ایجنسیوں اور پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریں۔

دوران سماعت منیر اے ملک نے جواب الجواب میں کہا کہ ‏سپریم کورٹ نے پاکستان سے باہر گئے پیسے کو واپس لانے کے لیے کمیٹی بنائی تھی، مذکورہ کمیٹی نے تجویز کیا تھا کہ آمدن اور اثاثوں کے فارم میں کئی ابہام ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ الزام عائد کیا گیا کہ جسٹس عیسیٰ نے جان بوجھ کر جائیدادیں چھپائیں جبکہ عدالتی کمیٹی کہتی ہے کہ غیر ملکی اثاثے ظاہر کرنے سے متعلق قانون میں بھی ابہام ہے۔

جسٹس عیسیٰ کے وکیل کی بات پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کا مؤقف تھا کہ ریفرنس سے پہلے جج کی اہلیہ سے دستاویز لی جائیں، گزشتہ روز کی سماعت کے بعد آپ کے مؤقف کو تقویت ملتی ہے۔

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ کیا ہم ایسا قانون چاہتے ہیں کہ ایک ادارہ دوسرے کی جاسوسی کرے؟ جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ جج کے بنیادی حقوق زیادہ اہم ہیں، یا ان کا لیا گیا حلف؟ اس پر منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ عدالت درخواست کو انفرادی شخص کے حقوق کی پٹیشن کے طور پر نہ لے۔

اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ جسٹس فائز عیسی گزشتہ دنوں سپریم کورٹ آئے تھے، کیا جج نے بنیادی حق استعمال کرکے حلف کی خلاف ورزی نہیں کی، کیا اس طرح جسٹس عیسیٰ کا عدالت آنا ضابطہ اخلاق کے منافی نہیں۔

جس کے جواب میں منیر اے ملک نے کہا کہ اس بات کا انحصار اس پر ہے کہ جج اپنی ذات کے لیے آئے یا یا عدلیہ کے لیےآئے تھے، آج قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر ہے تو کل نجانے کس کے خلاف ہو۔

ساتھ ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک کا جواب الجواب پورا ہوگیا۔

جسٹس عیسیٰ کے وکیل کے جواب الجواب کے بعد سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے دلائل دینا شروع کیے اور کہا کہ اسلام ہر مرد اور عورت کو جائیداد رکھنے کا حق دیتا ہے۔

اس موقع پر حامد خان نے قرآن پاک کی سورۃ النسا کا بھی حوالہ دیا۔

اے آر یو کو لامحدود اختیارات دیئے گئے، رضا ربانی

سماعت کے دوران سندھ بار کونسل کے وکیل رضا ربانی نے بھی دلائل دیے اور کہا کہ ‏قوائد میں جن ایجنسیوں کا ذکر ہے وہ پہلے سے قائم شدہ ہیں، جس پر جسٹس منصور علی شاہ بولے کے جتنی بھی ایجنسیاں موجود ہیں ان کو قانون کی سپورٹ بھی حاصل ہے، تاہم اس کے جواب میں رضا ربانی نے کہا کہ اے آر یو کو لامحدود اختیارات دیئے گئے۔

رضا ربانی کا کہنا تھا کہ نوٹیفیکیشن کے مطابق اے آر یو کو کابینہ کے فیصلے کا تحفظ حاصل ہے، ‏اے آر یو یونٹ کے لیے قانون سازی نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ تاثر دیا گیا کہ آے ار یو قانونی فورس ہے، حکومت کے مطابق وزیر اعظم ادارہ بنا سکتے ہیں تاہم وزیراعظم وزارت یا ڈویژن بنا سکتے ہیں۔

بعد ازاں بار کونسل کے وکلا کے بھی دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد عدالت میں کیس کی سماعت مکمل ہوگئی۔

اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے یہ ریمارکس دیے گئے کہ یہ ہمارے لیے بڑا اہم معاملہ ہے، ہمیں سوچنے کا وقت دیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بار کونسل اور بار ایسوسی ایشن کا عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے، تاہم سوال یہ ہے کہ ریفرنس مکمل خارج کردیں؟

ساتھ ہی سپریم کورٹ نے سماعت مکمل ہونے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، جس کا مختصر فیصلہ 4 بجے کے بعد سنا دیا گیا۔

جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کا بیان

خیال رہے کہ گزشتہ روز کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے ان 3 آف شور جائیدادوں کی خریداری کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز کے ثبوت فراہم کردیے تھے جس کی منی ٹریل ان کے شوہر کے خلاف صدارتی ریفرنس میں اہم ہے۔

ان ثبوتوں پر جسٹس عمر عطا بندیال نے یہ ریمارکس دیے تھے کہ جائیدادوں کے لیے (رقم کے) ذرائع کے حوالے سے جو مواد فراہم کیا گیا ہم اس سے کافی مطمئن ہیں۔

عدالت کے سامنے اپنے بیان میں زرینا مونتیسرات کریرا کھوسو نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ لندن کی ان جائیدادوں میں جسٹس عیسیٰ نے کچھ نہیں کیا جس کی بنیاد پر ان کے شوہر کے خلاف صدارتی ریفرنس تیار کیا گیا۔

واضح رہے کہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے اپنے نام سے متعلق بھی واضح کیا تھا اور بتایا تھا اور پیدائش کا سرٹیکفیٹ بھی عدالت میں دکھایا تھا جس میں ان کا پہلا نام موجود تھے۔

انہوں نے کہا تھا کہ لوگوں نے ان کا نام ‘سرینا’ ہونے پر مذاق اڑیا جبکہ اسپیشن (ہسپانوی) زبان میں زرینا کو ‘سرینا’ کہا جاتا ہے

ساتھ ہی جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے بتایا تھا کہ ان کا نام شناختی کارڈ پر سرینا عیسیٰ ہے، ان کی والدہ اسپین ہیں جبکہ ان کے پاس اسپینش پاسپورٹ ہے۔

اہلیہ جسٹس عیسیٰ نے کہا تھا کہ یہ الزام لگایا گیا کہ میں نے جج کے آفس کا غلط استعمال کیا، جب میرے خاوند وکیل تھے تو مجهے پاکستان کا 5 سال کا ویزا جاری ہوا۔

انہوں نے وضاحت کی تھی کہ مجھے 5 سال کا ویزا اس وقت ملا جب میرے خاوند جج نہیں تھے، میرا ویزا ختم ہوا تو نئے ویزے کے لیے اپلائی کر دیا پھر جب دوسرا ویزا جاری ہوا تو وہ سپریم کورٹ کے جج نہیں تھے۔

انہوں نے بتایا تھا کہ جنوری 2020 میں مجھے صرف ایک سال کا ویزا جاری ہوا، یہ ویزا جاری کرنے سے پہلے مجھے ہراساں کیا گیا، ہراساں کرنے کے لیے کم مدت کا ویزا جاری کیا گیا۔

عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ آبدیدہ بھی ہوئی تھیں تاہم انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان کے شوہر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انہیں مشورہ دیا کہ انہیں (اس معاملے میں) نہیں پڑنا چاہیے کیونکہ ریفرنس ان سے متعلق ہے لیکن زرینا عیسیٰ نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ ان کا اور ان کے خاندان کا نام صاف ہو، ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ اپنوں نے ایسا کیس بنایا جیسے ماسٹر مائنڈ کرمنل (مجرم) ہوں۔

سپریم کورٹ کے سامنے بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے جائیدادوں کے بارے میں اہلیہ جسٹس عیسیٰ نے کہا تھا کہ پہلی جائیداد 2004 میں برطانیہ میں خریدی، برطانیہ میں جائیداد کی خریداری کے لیے پاسپورٹ کو قبول کیا گیا۔

انہوں نے اپنے بیان میں یہ بھی بتایا تھا کہ وہ کراچی میں امریکن اسکول میں وہ ملازمت کرتی رہیں، ریحان نقوی ان کے ٹیکس معاملات کے وکیل تھے، ان کی جانب سے گوشوارے جمع کروانے پر حکومت نے انہیں ٹیکس سرٹیفکیٹ جاری کیا لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ میرا ٹیکس ریکارڈ کراچی سے اسلام آباد منتقل کردیا گیا، ایف بی آر سے ریکارڈ کی منتقلی کا پوچھا تو کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

زرینا عیسیٰ نے کہا تھا کہ ‏کلفٹن بلاک 4 میں جائیداد خریدی، بعد ازاں کلفٹن کی جائیداد فروخت کردی گئی، اس کے علاوہ شاہ لطیف میں خریدی گئی ایک اور جائیداد بھی فروخت کر دی گئی۔

انہوں نے بتایا تھا کہ ان کی زرعی زمین ان کے نام پر ہے، زرعی زمین کا خاوند سے تعلق نہیں ہے، زرعی زمین والد سے ملی ہے، یہ زمین سندھ کے ضلع جیکب آباد اور ڈیرہ مراد جمالی بلوچستان میں ہے، ان زرعی زمین کی دیکھ بھال ان کے والد کرتے تھے جبکہ حکومت کو میری زمین کے بارے میں پتا تھا۔

اپنے بیان کے دوران انہوں نے لندن کی جائیدادوں اور پاکستان سے رقم منتقلی کے بارے میں بھی سب کچھ بتایا تھا اور کہا تھا کہ انہوں نے 2003 سے 2013 کے درمیان جائیدادیں خریدیں اور اسیٹنڈرڈ چارٹرڈ بینک کے ذریعے 7 لاکھ پاؤنڈ کی رقم منتقل کی جو ان کے نام پر منتقل کی گئی، اس کے علاوہ ‘بینک نے ہرٹرانزیکشن کی رپورٹس اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو دی’۔

جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے یہ بھی بتایا تھا کہ پہلی جائیداد 2004 میں ان کے نام پر 2 لاکھ 36 ہزار پاؤنڈز، دوسری جائیداد 2013 میں ان کے اور ان کے بیٹے کے نام پر 2 لاکھ 45 ہزار پاؤنڈز جبکہ تیسری جائیداد ان کی بیٹی کے نام پر 2 لاکھ 70 ہزار پاؤنڈز میں خریدی گئی۔

صدارتی ریفرنس سے فل کورٹ کی سماعت تک

سپریم کورٹ کے سینئر ترین ججز میں سے ایک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کا معاملہ مئی 2019 کے اواخر میں سامنے آیا۔

سپریم جوڈیشل کونسل میں صدر مملکت کی جانب سے بھجوائے گئے ریرنس میں جسٹس عیسیٰ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔

صدارتی ریفرنس میں اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی تھی۔

یاد رہے کہ ججز کی بے ضابطگیوں اور دیگر شکایات درج کرانے کا واحد فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے۔

ریفرنس دائر ہونے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردارکشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔

صدر مملکت کو اپنے دوسرے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ انہوں نے لندن میں موجود جائیدادوں سے متعلق کچھ نہیں چھپایا۔

دوسرے خط میں جسٹس قاضی فائز نے استفسار کیا تھا کہ آیا وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنے ٹیکس ریٹرنز میں اپنی بیویوں اور بچوں کی ملکیت میں موجود جائیدادوں کی تفصیلات فراہم کی ہیں، اگر وزیراعظم نے خود ایسا نہیں کیا تھا تو انہیں صدر کو ریفرنس دائر کرنے کی تجویز نہیں دینی چاہیے تھی۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ میں جسٹس عیسیٰ پر ریفرنس کے خلاف سماعتوں میں فیض آباد دھرنا کیس کا کئی مرتبہ ذکر کیا گیا تو یہ واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 6 فروری 2019 کو فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ سنایا تھا اور اس کیس میں عدالت عظمیٰ نے حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، خفیہ ایجنسیوں اور پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریں۔

سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجنے کے بعد 3 جون 2019 کو وزارت قانون و انصاف کے ترجمان اور وزیر اعظم کے دفتر کے اثاثہ جات وصولی یونٹ (اے آر یو) نے ایک مشترکہ بیان میں دعویٰ کیا کہ انہیں اعلیٰ عدالتوں کے ججز کی برطانیہ میں رجسٹرڈ جائیدادوں کی مصدقہ نقول موصول ہوگئیں جن کی بنیاد پر سپریم جوڈیشل کونسل ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔

تاہم  اس کے جواب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت کو دوسرا خط لکھا اور کہا کہ انہوں نے لندن میں موجود جائیدادوں سے متعلق کچھ نہیں چھپایا۔

بعد ازاں سپریم جوڈیشل کونسل میں [**14 جون 2019 کو اس معاملے کو سننے کے لیے پہلا اجلاس**][1] ہوا، اس پہلی سماعت کی سربراہی اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کی جبکہ ان کے ہمراہ جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی محمد شیخ اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ پر مشتمل کونسل کے 5اراکین شامل تھے۔

14 جون کی سماعت کے بعد جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کو صدارتی ریفرنس کی نقول فراہم کر کے ان سے الزامات پر جواب طلب کیا گیا تھا تاہم اس وقت سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے اظہارِ وجوہ کا نوٹس نہیں جاری کیا گیا تھا۔

بعد ازاں 12 جولائی کو ہونے والی سپریم جوڈیشل کونسل کی سماعت کے بعد ریفرنس کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کیا گیا تھا جس میں ان پر برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر جائیداد رکھنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

تاہم جسٹس عیسیٰ جو یہ نوٹس 17 جولائی کو موصول ہوا تھا جس میں انہیں 15 روز میں جواب دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔

27 جولائی کو سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان سے درخواست کی تھی کہ ان کے خلاف ثبوت مہیا کیے جائیں تا کہ اظہارِ وجوہ کے نوٹس کے جواب میں وہ اپنا جواب تیار کرلیں۔

بعد ازاں 7 اگست 2019 جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو ذاتی طور پر عدالت عظمیٰ میں چیلنج کردیا۔

جسٹس قاضیٰ فائز عیسیٰ کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں 300 سے زائد صفحات پر مشتمل تفصیلی درخواست دائر کی گئی تھی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ میرے خلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے، لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ میری درخواست پر فیصلہ آنے تک سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکی جائے۔

یہاں یہ بھی واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کی کارروائی کو رکوانے کے دیگر درخواست گزاروں نے بھی متفرق درخواستیں دائر کی تھیں۔

جس کے بعد 26 اگست کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف دائر آئینی درخواست کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ میں فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست جمع کرائی تھی۔

اس درخواست میں جسٹس عیسیٰ نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی ان کی درخواست کے ساتھ دیگر درخواست گزاروں کی درخواستوں پر فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔

جس کے بعد مذکورہ معاملے پر پہلے 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا، جس میں جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس طارق مسعود، جسٹس فیصل عرب، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل شامل تھے۔

تاہم یہ بینچ 17 ستمبر کو اس وقت تحلیل ہوگیا تھا جب مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے ججز پر اعتراض اٹھایا تھا جس کے ساتھ ہینئے بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ چیف جسٹس پاکستان کو بھیج دیا گیا تھا۔

منیر اے ملک کی جانب سے ججز پر اعتراض اٹھایا گیا تھا کہ ‘جن ججز نے چیف جسٹس بننا ہے، ان کی دلچسپی ہے، اس بینچ کے 2 ججز ممکنہ چیف جسٹس بنیں گیے اور ان دو ججز کا براہ راست مفاد ہے’، بعد ازاں اس وقت بینچ میں شامل جسٹس طارق مسعود نے کہا تھا کہ ہم پہلے ہی ذہن بنا چکے تھے کہ بینچ میں نہیں بیٹھنا، اس کے ساتھ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے تھے کہ ہم نے جو حلف اٹھایا ہے تمام حالات میں اس کا پاس رکھنا ہوتا ہے، ہمارے ساتھی جج کی جانب سے ہمارے بارے میں تحفظات افسوسناک ہیں۔

علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے دونوں ججز جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس سردار طارق مسعود نے خود کو بینچ سے الگ کردیا تھا اور بینچ تحلیل ہوگیا تھا۔

جس کے بعد 20 ستمبر 2019 کو اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے لیے نیا 10 رکنی فل کورٹ تشکیل دیا تھا۔

عدالت عظمیٰ کے اس 10 رکنی بینچ کا سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال کو بنایا گیا تھا جبکہ ان کے علاوہ جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم خان، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس قاضی امین احمد اس کا حصہ تھے۔

بعد ازاں اس معاملے پر فل کورٹ نے کیس کی سماعت کی تھی جہاں حکومت کی جانب سے اس وقت کے اٹارنی جنرل برائے پاکستان انور منصور خان جبکہ جسٹس عیسیٰ کی جانب سے ان کی قانون ٹیم کے رکن اور سینئر وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیے تھے جبکہ ان کی غیر موجودگی میں دیگر ٹیم کے رکن نے مؤقف عدالت کے سامنے رکھا تھا۔

بعد ازاں فل کورٹ مذکورہ معاملے کو سن رہا تھا اور رواں سال فروری میں سپریم کورٹ نے جسٹس عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران اثاثہ جات برآمدی یونٹ کے اختیارات سمیت 2 قانونی نکات اٹھائے تھے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا تھا کہ پہلا نکتہ ہے کہ جج کے خلاف انکوائری کا اختیار اثاثہ جات برآمدی یونٹ کو کس نے دیا جبکہ دوسرا یہ کہ کس قانون کے تحت حکومتی حکام نے ریفرنس کو پبلک کیا۔

منیر اے ملک نے ابتدائی طور معاملے پر دلائل دیے تھے اور یہ کیس طویل سماعتوں کے ساتھ جاری رہا تھا جبکہ رواں سال کے آغاز میں انور منصور کے دلائل دینے کی باری آئی تھی۔

تاہم اس کیس میں صورتحال اس وقت ایک ڈرامائی موڑ اختیار کرگئی تھی جب اس وقت کے اٹارنی جنرل انور منصور خان نے عدالت عظمیٰ کے سامنے ایسا بیان دیا تھا کہ اسے حذف کردیا گیا تھا۔

18 فروری کو اپنے دلائل کے آغاز کے پہلے روز ہی صورتحال اس وقت ناخوشگوار ہوگئی تھی جب اٹارنی جنرل نے شعلہ بیانی سے دلائل کا آغاز کیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے فل کورٹ کے سامنے ایک بیان دیا تھا، جس پر ججز نے انہیں استثنیٰ دیتے ہوئے بیان سے دستبردار ہونے کا کہا تھا، ساتھ ہی مذکورہ بیان کو ’بلاجواز‘ اور ’ انتہائی سنگین‘ قرار دیا تھا۔

اس بیان سے متعلق عدالت نے میڈیا کو رپورٹنگ سے روک دیا تھا۔

اسی روز کی سماعت میں اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ انہیں احساس ہے کہ انہوں نے کچھ ایسا کہا تھا کہ جو عدالتی بینچ کے لیے خوشگوار نہیں تھا، جس کے جواب میں بینچ کے رکن جسٹس مقبول باقر نے ردعمل دیا تھا کہ ’یہ بلاجواز’ تھا۔

ساتھ ہی عدالت کے ایک اور رکن جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے تھے کہ انور منصور کو اپنے بیان سے دستبردار ہونا چاہیے۔

تاہم اس وقت اٹارنی جنرل نے بیان واپس لینے سے انکار کردیا تھا جس کے ساتھ ہی عدالت نے میڈیا کو بیان شائع کرنے سے منع کردیا تھا کیونکہ بعدازاں یہ رپورٹ ہوا تھا کہ ’اٹارنی جنرل اپنے بیان سے دستبردار ہوگئے تھے‘۔

بعد ازاں 19 فروری کو جسٹس عیسیٰ کیس کی جب دوبارہ سماعت ہوئی تھی تو جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ کل آپ نے اتنی بڑی بات کردی ہے، یہ دلائل کا طریقہ کار نہیں، تحریری طور پر اپنے دلائل دیں۔

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ تحریری دلائل نہیں دے سکتا، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ اٹارنی جنرل نے بینچ کے حوالے سے گزشتہ روز کچھ بیان دیا، اٹارنی جنرل اپنے بیان کے حوالے سے مواد عدالت میں پیش کریں، اگر اٹارنی جنرل کو مواد میسر نہیں آتا تو تحریری معافی مانگیں۔

تاہم یہ قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ اٹارنی جنرل کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں ججز کی جاسوسی سے متعلق کوئی بات کی گئی تھی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ میں ‘متنازع بیان’ دینے کے بعد 20  فروری کو انور منصور خان نے اٹارنی جنرل فار پاکستان کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا جبکہ حکومت کا کہنا تھا کہ ان سے استعفیٰ مانگا گیا تھا۔

حکومت کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ عدالت عظمیٰ میں دیے گئے بیان سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں نہ ہی اس بارے میں حکومت کو پتہ تھا بلکہ یہ انور منصور کی ذاتی رائے تھی تاہم سابق اٹارنی جنرل انور نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ میں دیے گئے بیان سے حکومت آگاہ تھی۔

بعد ازاں حکومت نے خالد جاوید خان کو نیا اٹارنی جنرل مقرر کیا تھا تاہم انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں حکومت کی نمائندگی کرنے سے انکار کردیا تھا۔

مذکورہ معاملے کی 24 فروری کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے حکومت کو اس معاملے کے ایک کُل وقتی وکیل مقرر کرنے کا کہا تھا، جس کے بعد معاملے کو طویل وقفے تک ملتوی کردیا گیا تھا، جس کے بعد مذکورہ معاملے میں وفاق کی نمائندگی کے لیے فروغ نسیم نے وزیر قانون کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور وہ پیش ہوئے تھے،

ایک طویل وقفے کے بعد اس کیس کی سماعت جون کے آغاز سے دوبارہ شروع ہوئی تھی اور گزشتہ 2 ہفتوں سے روزانہ کی بنیاد پر اس کیس  کی سماعت ہورہی تھی اور آج کی سماعت میں کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا گیا تھا جسے بعد میں سناتے ہوئے ریفرنس کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔

xosotin chelseathông tin chuyển nhượngcâu lạc bộ bóng đá arsenalbóng đá atalantabundesligacầu thủ haalandUEFAevertonxosofutebol ao vivofutemaxmulticanaisonbetbóng đá world cupbóng đá inter milantin juventusbenzemala ligaclb leicester cityMUman citymessi lionelsalahnapolineymarpsgronaldoserie atottenhamvalenciaAS ROMALeverkusenac milanmbappenapolinewcastleaston villaliverpoolfa cupreal madridpremier leagueAjaxbao bong da247EPLbarcelonabournemouthaff cupasean footballbên lề sân cỏbáo bóng đá mớibóng đá cúp thế giớitin bóng đá ViệtUEFAbáo bóng đá việt namHuyền thoại bóng đágiải ngoại hạng anhSeagametap chi bong da the gioitin bong da lutrận đấu hôm nayviệt nam bóng đátin nong bong daBóng đá nữthể thao 7m24h bóng đábóng đá hôm naythe thao ngoai hang anhtin nhanh bóng đáphòng thay đồ bóng đábóng đá phủikèo nhà cái onbetbóng đá lu 2thông tin phòng thay đồthe thao vuaapp đánh lô đềdudoanxosoxổ số giải đặc biệthôm nay xổ sốkèo đẹp hôm nayketquaxosokq xskqxsmnsoi cầu ba miềnsoi cau thong kesxkt hôm naythế giới xổ sốxổ số 24hxo.soxoso3mienxo so ba mienxoso dac bietxosodientoanxổ số dự đoánvé số chiều xổxoso ket quaxosokienthietxoso kq hôm nayxoso ktxổ số megaxổ số mới nhất hôm nayxoso truc tiepxoso ViệtSX3MIENxs dự đoánxs mien bac hom nayxs miên namxsmientrungxsmn thu 7con số may mắn hôm nayKQXS 3 miền Bắc Trung Nam Nhanhdự đoán xổ số 3 miềndò vé sốdu doan xo so hom nayket qua xo xoket qua xo so.vntrúng thưởng xo sokq xoso trực tiếpket qua xskqxs 247số miền nams0x0 mienbacxosobamien hôm naysố đẹp hôm naysố đẹp trực tuyếnnuôi số đẹpxo so hom quaxoso ketquaxstruc tiep hom nayxổ số kiến thiết trực tiếpxổ số kq hôm nayso xo kq trực tuyenkết quả xổ số miền bắc trực tiếpxo so miền namxổ số miền nam trực tiếptrực tiếp xổ số hôm nayket wa xsKQ XOSOxoso onlinexo so truc tiep hom nayxsttso mien bac trong ngàyKQXS3Msố so mien bacdu doan xo so onlinedu doan cau loxổ số kenokqxs vnKQXOSOKQXS hôm naytrực tiếp kết quả xổ số ba miềncap lo dep nhat hom naysoi cầu chuẩn hôm nayso ket qua xo soXem kết quả xổ số nhanh nhấtSX3MIENXSMB chủ nhậtKQXSMNkết quả mở giải trực tuyếnGiờ vàng chốt số OnlineĐánh Đề Con Gìdò số miền namdò vé số hôm nayso mo so debach thủ lô đẹp nhất hôm naycầu đề hôm naykết quả xổ số kiến thiết toàn quốccau dep 88xsmb rong bach kimket qua xs 2023dự đoán xổ số hàng ngàyBạch thủ đề miền BắcSoi Cầu MB thần tàisoi cau vip 247soi cầu tốtsoi cầu miễn phísoi cau mb vipxsmb hom nayxs vietlottxsmn hôm naycầu lô đẹpthống kê lô kép xổ số miền Bắcquay thử xsmnxổ số thần tàiQuay thử XSMTxổ số chiều nayxo so mien nam hom nayweb đánh lô đề trực tuyến uy tínKQXS hôm nayxsmb ngày hôm nayXSMT chủ nhậtxổ số Power 6/55KQXS A trúng roycao thủ chốt sốbảng xổ số đặc biệtsoi cầu 247 vipsoi cầu wap 666Soi cầu miễn phí 888 VIPSoi Cau Chuan MBđộc thủ desố miền bắcthần tài cho sốKết quả xổ số thần tàiXem trực tiếp xổ sốXIN SỐ THẦN TÀI THỔ ĐỊACầu lô số đẹplô đẹp vip 24hsoi cầu miễn phí 888xổ số kiến thiết chiều nayXSMN thứ 7 hàng tuầnKết quả Xổ số Hồ Chí Minhnhà cái xổ số Việt NamXổ Số Đại PhátXổ số mới nhất Hôm Nayso xo mb hom nayxxmb88quay thu mbXo so Minh ChinhXS Minh Ngọc trực tiếp hôm nayXSMN 88XSTDxs than taixổ số UY TIN NHẤTxs vietlott 88SOI CẦU SIÊU CHUẨNSoiCauVietlô đẹp hôm nay vipket qua so xo hom naykqxsmb 30 ngàydự đoán xổ số 3 miềnSoi cầu 3 càng chuẩn xácbạch thủ lônuoi lo chuanbắt lô chuẩn theo ngàykq xo-solô 3 càngnuôi lô đề siêu vipcầu Lô Xiên XSMBđề về bao nhiêuSoi cầu x3xổ số kiến thiết ngày hôm nayquay thử xsmttruc tiep kết quả sxmntrực tiếp miền bắckết quả xổ số chấm vnbảng xs đặc biệt năm 2023soi cau xsmbxổ số hà nội hôm naysxmtxsmt hôm nayxs truc tiep mbketqua xo so onlinekqxs onlinexo số hôm nayXS3MTin xs hôm nayxsmn thu2XSMN hom nayxổ số miền bắc trực tiếp hôm naySO XOxsmbsxmn hôm nay188betlink188 xo sosoi cầu vip 88lô tô việtsoi lô việtXS247xs ba miềnchốt lô đẹp nhất hôm naychốt số xsmbCHƠI LÔ TÔsoi cau mn hom naychốt lô chuẩndu doan sxmtdự đoán xổ số onlinerồng bạch kim chốt 3 càng miễn phí hôm naythống kê lô gan miền bắcdàn đề lôCầu Kèo Đặc Biệtchốt cầu may mắnkết quả xổ số miền bắc hômSoi cầu vàng 777thẻ bài onlinedu doan mn 888soi cầu miền nam vipsoi cầu mt vipdàn de hôm nay7 cao thủ chốt sốsoi cau mien phi 7777 cao thủ chốt số nức tiếng3 càng miền bắcrồng bạch kim 777dàn de bất bạion newsddxsmn188betw88w88789bettf88sin88suvipsunwintf88five8812betsv88vn88Top 10 nhà cái uy tínsky88iwinlucky88nhacaisin88oxbetm88vn88w88789betiwinf8betrio66rio66lucky88oxbetvn88188bet789betMay-88five88one88sin88bk88xbetoxbetMU88188BETSV88RIO66ONBET88188betM88M88SV88Jun-68Jun-88one88iwinv9betw388OXBETw388w388onbetonbetonbetonbet88onbet88onbet88onbet88onbetonbetonbetonbetqh88mu88Nhà cái uy tínpog79vp777vp777vipbetvipbetuk88uk88typhu88typhu88tk88tk88sm66sm66me88me888live8live8livesm66me88win798livesm66me88win79pog79pog79vp777vp777uk88uk88tk88tk88luck8luck8kingbet86kingbet86k188k188hr99hr99123b8xbetvnvipbetsv66zbettaisunwin-vntyphu88vn138vwinvwinvi68ee881xbetrio66zbetvn138i9betvipfi88clubcf68onbet88ee88typhu88onbetonbetkhuyenmai12bet-moblie12betmoblietaimienphi247vi68clupcf68clupvipbeti9betqh88onb123onbefsoi cầunổ hũbắn cáđá gàđá gàgame bàicasinosoi cầuxóc đĩagame bàigiải mã giấc mơbầu cuaslot gamecasinonổ hủdàn đềBắn cácasinodàn đềnổ hũtài xỉuslot gamecasinobắn cáđá gàgame bàithể thaogame bàisoi cầukqsssoi cầucờ tướngbắn cágame bàixóc đĩaAG百家乐AG百家乐AG真人AG真人爱游戏华体会华体会im体育kok体育开云体育开云体育开云体育乐鱼体育乐鱼体育欧宝体育ob体育亚博体育亚博体育亚博体育亚博体育亚博体育亚博体育开云体育开云体育棋牌棋牌沙巴体育买球平台新葡京娱乐开云体育mu88qh88