شام میں ایک دہائی سے جاری جنگ میں تقریباً 5 لاکھ اموات
شام کی جنگ پر گہری نگاہ رکھنے والے انسانی حقوق کے نگراں ادارے نے کہا ہے کہ شام میں ایک دہائی سے جاری جنگ میں حال ہی میں تقریباً 5 لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جس میں وہ ایک لاکھ اموات بھی شامل ہیں جن کی حال ہی میں تصدیق کی گئی۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق شام میں انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والے برطانوی ادارے نے کہا ہے کہ 2011 میں حکومت مخالف مظاہروں پر وحشیانہ جبر کے نتیجے میں شروع ہونے والے اس تنازع میں اب تک 4 لاکھ 94ہزار 438 افراد کی جان لی جا چکی ہیں۔
اس سال مارچ میں مذکورہ ادارے کی جانب سے جاری کردہ پچھلے اعدادوشمار میں 3لاکھ 88ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس جنگ کے نگراں ادارے نے اپنے زمینی ذرائع کے اس نیٹ ورک کے ذریعے کئی ماہ کی دستاویزات کی کوششوں کے بعد ایک لاکھ پانچ ہزار 15 اضافی امواتر کی تصدیق کی ہے۔
نگراں ادارے سربراہ رامی عبدالرحمٰن کے مطابق ان اموات میں سے اکثر 2012 کے آخر سے نومبر 2015 کے درمیان ہوئیں۔
انہوں نے بتایا کہ حالیہ تصدیق شدہ اموات میں سے 42ہزار سے زیادہ عام شہری ہیں جو جیل میں شامی حکومت کے تشدد سے ہلاک ہوئے۔
رامی عبدالرحمن نے کہا کہ لڑائی میں قدرے کمی کے بعد ان کی تنظیم کو اموات کی ان اطلاعات کی تحقیقات میں مددم لی جو دستاویزات کی کمی کی وجہ سے مجموعی طور پر شامل نہیں کی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ اس نے ہمیں ان دسیوں ہزار مقدمات کی دستاویز تیار کرنے کے لیے موقع فراہم کیا جس کے لیے ہمارے پاس ثبوتوں کی کمی تھی۔
حکومتی فورسز نے شام کے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا ہے اور شمال مغرب میں ادلیب کے علاقے میں مرکزی محاذ کے ساتھ جنگ بندی ابھی بھی جاری ہے اور تنازع کے آغاز کے بعد سے اب تک تشدد کم ترین سطح پر ہے۔
جیل میں اموات
نگراں ادارے کے شائع کردہ نئے اعدادوشمار میں شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ 59 ہزار 774 ہو گئی ہے، ان میں سے زیادہ تر ہلاکتیں شام کی سرکاری فوج اور اتحادی ملیشیا کے حملوں سے ہوئیں۔
انسانی حقوق کے نگراں ادارے نے 2011 کے بعد سے اب تک سرکاری قید خانوں اور حراستی مراکز میں کم از کم 57 ہزار 567 اموات کو دستاویز کی شکل دی جبکہ اس سے قبل مارچ میں 16ہزار اموات کی تصدیق کی گئی تھی۔
اس نے شامی فوجیوں اور اتحادی ملیشیا کی ایک لاکھ 68 ہزار 326 اموات کی تصدیق کی البتہ حومتی اعدادوشمار کے مطابق مرنے والوں کی اس سے نصف ہے۔
اس تنازع میں داعش اور القاعدہ سے منسلک گروپوں کے 68ہزار 393 شت پسندوں کے علاوہ 79ہزار 844 دیگر باغی ہلاک ہوگئے ہیں۔
مارچ 2020 میں ترکی اور روس کے ذریعہ طے پانے والے ایک معاہدے کے نتیجے میں باغیوں کی زیرقیادت ادلیب محاصرے پر حکومت کی کارروائی کو ناکام بنا دیا گیا تھا جس سے بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ اس تنازع میں اس حد تک انسانی تکلیف کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کا تک سامنا نہیں ہوا۔
نگراں ادارے کے مطابق دونوں اطراف کی توجہ اس کے بعد سے کووڈ-19 کے وبائی مرض سے لڑنے پر مرکوز ہے اور 2020 میں جنگ کے آغاز کے بعد سے تنازعات سے وابستہ سب سے کم 10ہزار اموات رپورٹ کی گئیں۔ آج شامی حکومت 2015 سے روس کی حمایت یافتہ فتوحات کے بعد ملک کے دوتہائی سے زیادہ حصے پر قابض ہے۔
سن 2000 سے اقتدار میں رہنے والے صدر بشار الاسد مئی میں چوتھی مرتبہ سات سالہ مدت کے لیے دوبارہ منتخب ہو گئے ہیں اور جنگ نے ملک کی نصف سے زیادہ آبادی کو گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور کردیا ہے۔