فیصل آباد، صنعتی ادار وں کی برآمدات میں کمی کا عمل شروع
فیصل آباد: صنعتی ادار وں کی برآمدات میں کمی کا عمل شروع ہوچکا ہے جس کے اثرات رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں نمایاں ہوں گے، پاکستان کی آمدن میں برآمدات اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی ترسیلات سر فہرست ہیں جن میں ماہانہ ایک بلین ڈالر تک کی کمی متوقع ہے ۔ انہوں نے موجودہ حالات اُن کے اپنے ادارون کی پیداوار میں تیس فیصدی کمی آ چکی ہے۔ زیادہ تر صنعتی ادارے 60-70فیصد کی استعداد کار پر چل رہے ہیں مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر بجلی اور گیس کی قیمتیں مزید بڑھیں تو پھر کیا ہوگاآن لائن کے مطابق فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹر ی کے زیراہتمام ایف سی سی آئی کونسل آف ٹیکسٹائلز کا پہلا اجلاس چیئرمین کاشف ضیاء کی زیر صدارت ہوا جس میں فیصل آباد چیمبر آ ف کامرس اینڈانڈسٹری کے صدر ڈاکٹر خرم طارق ، پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے محمد احمد ، آل پاکستان بیڈ شیٹس اینڈ اپ ہولسٹری مینو فیکچررز ایسوسی ایشن کے عارف احسان ملک، آل پاکستان ٹیکسٹائل پرنٹنگ ملز ایسوسی ایشن کے اصغر قادری ، آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے عمران غفور، آل پاکستان کاٹن پاور لومز ایسوسی ایشن کے اعجاز احمد ناگرہ اور عبداللہ قادری نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں ٹیکسٹائل سیکٹر کے اجتماعی مطالبات میں یکسانیت پیدا کرنے کیلئے مضبوط اور توانا آواز اٹھانے پر غور کیا گیا۔ صدر ڈاکٹر خرم طارق نے کہا کہ ٹیکسٹائل کونسل کا مقصد اس شعبہ کے مختلف سیکٹرز میں ہم آہنگی اور یکجہتی پیدا کرنا ہے اور یہ ذمہ داری کاشف ضیاء کو سونپی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مختلف سیکٹرز کی اپنی الگ الگ ایسوسی ایشن ہیں جبکہ چیمبر کے پلیٹ فارم پر سب کے مسائل کو لے کر چلنا ایک کٹھن اور مشکل مرحلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک سیکٹر کے مفادات کا دوسرے سیکٹر سے ٹکرائو ہو سکتا ہے اور اسی وجہ سے حکومتی سطح پر ہمارے باہمی اختلافات کی آڑ میں ٹیکسٹائل کے اجتماعی مسائل حل نہیں کئے جاتے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ہم ان اختلافات کو مقامی طور پر خود طے کر لیں تاکہ قومی سطح پر کی جانے والی کوششوں کو نتیجہ خیز بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل سے تمام سیکٹرز وابستہ ہیں اِس لئے ہمیں ایسی باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے جس سے دوسرے سیکٹرز کو نقصان پہنچتا ہو یا باہمی کشمکش کا اظہارہوتا ہو۔ انہوں نے اجلاس کے شرکاء سے کہا کہ وہ اس بارے میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کریں تاکہ ایک متفقہ لائحہ عمل طے کیا جا سکے۔ ڈاکٹر خرم طارق نے کہا کہ تمام ایسوسی ایشنیں اپنے مطالبات اور اعداد وشمار کے حوالے سے مکمل ہوم ورک کر کے اپنی جامع تجاویز پیش کریں تاکہ اُن کا جائزہ لے کر اجتماعی مطالبات کو حتمی شکل دی جا سکے۔ صدر نے اس تجویز سے اتفاق کیا کہ ممبران اپنے ساتھ دور اندیش اور تخلیقی فکر رکھنے والے ممبران کو بھی لا سکتے ہیں۔ اجلاس میں طے کیا گیا کہ علاقائی تجارت کو فروغ دیا جائے اور اس سلسلہ میں بھارت اور ایران سے تجارت بڑھانے کو ترجیح دی جائے۔ مزید برآں مشرق بعید کے ملکوں سے تجارت بڑھانے کیلئے بھی معاہدے کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح مغربی منڈیوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے پائیدار مصنوعات کی تیاری پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ صدر نے ہیلتھ اور سیفٹی کے حوالے سے عالمی اداروں کی حکمت عملی پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اس پر قابو پانے کیلئے ہمیں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ جارحانہ خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ غیر روائتی نئی منڈیوں کی تلاش اور بزنس کے فروغ کیلئے کوششوں کو بھی تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ صدر چیمبر نے کہا کہ صنعتوں کا فرض ہے کہ وہ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے اپنے ادارے قائم کریں کیونکہ پبلک سیکٹر میں ایسے ادارے اپنی افادیت کھو بیٹھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جن مسائل پر اس میٹنگ میں گفتگو ہوئی ہے ان کے بارے میں متعلقہ شرکاء اپنی ورکنگ مکمل کر کے آئندہ میٹنگ میں دیں تاکہ اُن پر عمل درآمد کیلئے ضروری اقدامات اٹھائے جا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بہت سے اداروں نے اپنی شفٹیں بند کرنے کے باوجود ورکرز کو ایڈجسٹ کر رکھا ہے تاکہ اُن کے گھروں کاچولہا جلتا رہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر صورتحال مزید خراب ہوئی اور ادارے بند ہوئے تو بیروزگاری میں اضافے کے ساتھ ساتھ امن وامان کی صورتحال بھی خراب ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر خرم طارق نے کہا کہ وہ پہلے بھی کئی بار واضح طور پر کہ چکے ہیں کہ حکومت ٹیکسٹائل سیکٹر کو کوئی سبسڈی نہیں دے رہی۔ فیسکو کو بجلی پونے آٹھ سینٹ میں پڑ رہی ہے جسے وہ نو سینٹ میں بیچ رہے ہیں جبکہ دوسرے صوبوں میں ہونے والی بجلی چوری کا بوجھ بھی ہم اٹھا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کا حل DISCOsکی نجکاری میں ہے جس پر عمل درآمد تیز کیا جانا چاہیے۔ سینئر نائب صدر ڈاکٹر سجاد ارشد نے کہا کہ درآمدات پر فلڈ ڈیوٹی کے اطلاق کا بھی امکان ہے۔ آل پاکستان ٹیکسٹائل اینڈ پرنٹنگ ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین اصغر قادری نے جنرل سیلز ٹیکس کی شرح کو سنگل ڈیجٹ میں لانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ چین مکمل نہ ہونے کی وجہ سے اُن کے ممبروں کو 17فیصد جی ایس ٹی کے علاوہ تین فیصد Further Taxبھی ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ٹیکسٹائل پرنٹنگ کے بہت سے ادارے بند جبکہ باقی 50فیصد کی استعداد کار پر چل رہے ہیں۔ انہوں نے ائیر کارگو ٹرمینل اور نئی نہروں کے قیام کی بھی تجویز دی کہ تاکہ ملک میں بیکار اور بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنایا جا سکے