قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس، سپریم جوڈیشل کونسل نے انہیں خط لکھ دیا
اسلام آباد (وقت نیوز آن لائن) سینئر صحافی و اینکر پرسن مطیع اللہ جان نے دعویٰ کیا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے ریفرنس پر کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیاگیا تاہم ابتدائی سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے رابطہ کیا ہے اور کونسل کی طرف سے گھر پر آدھی رات کو کچھ دستاویزات پہنچائی گئیں جو وصول کرلی گئیں،
یہ ریفرنس کی دستاویزات ہیں جو حکومت نے بھیجی ہیں، ابھی ابتدائی انکوائری ہے ، ابھی باقاعدہ کارروائی شروع نہیں ہوئی ، فاضل جج معلومات دے سکتے ہیں تو وہ اپنا موقف سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش ہوکر دے سکتے ہیں تاکہ باقاعدہ قواعد کے مطابق باقاعدہ کارروائی ہوسکے، ابھی شوکاز نوٹس بھی جاری نہیں ہوا۔
اپنے یوٹیوب چینل ایک ویڈیو میں مطیع اللہ جان نے بتایا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے صدارتی ریفرنس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے رابطہ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جمعہ کے روز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کی اِن کیمرہ سماعت ہوئی جس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کے سیکرٹری ارباب عارف کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ججز کالونی میں واقع گھر کے پتے پر سربمہر لفافہ بھجوایا گیا،
فاضل جسٹس اسلام آباد میں موجود بھی نہیں تھے اور شاید ان کی لیٹ نائٹ واپسی کی وجہ سے ہی رات کو ہی سربمہر لفافہ پہنچایا گیا۔ مطیع اللہ جان نے دعویٰ کیا کہ اس سربمہر لفافے میں ریفرنس اور متعلقہ مواد ہوسکتا ہے۔سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے قواعد کے مطابق کسی شکایت پر ابتدائی انکوائری کے مرحلے میں مدعا علیہ جج سے رابطہ کر کے ریفرنس کا بتایا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ قانونی کارروائی ہے تاکہ سپریم جوڈیشل یہ فیصلہ کرسکے کہ آیا حکومتی ریفرنس جسے صدر مملکت نے وزیراعظم کے مشورے اور وزیرقانون کی معاونت سے بھجوایا، یہ اٹارنی جنرل کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ریفرنس کو آگے بڑھائیں ۔
ریفرنس کی ابتدائی سماعت تقریباً سوا گھنٹی جاری رہی ،جس دوران صرف اٹارنی جنرل کو بلایاگیا اور ان سے ابتدائی معلومات کا تبادلہ ہوا، وہ جب باہر آئے تو زیادہ مطمئن نہیں تھے ، کافی ٹینس دکھائی دے رہے تھے ۔ سینئر صحافی وحید مراد نے بتایا کہ جب کوئی ریفرنس آتا ہے تو کسی ایک جج کے سپرد کیا جاتا ہے کہ وہ دیکھیں کہ اس ریفرنس میں کوئی قابل عمل چیز ہے یا نہیں؟ جس کے بعد اجلاس ہوتا ہے اور انکوائری شروع ہوتی ہے ، تاحال عدالت نے ریفرنس مسترد نہیں کیے تاہم اٹارنی جنرل کے رویے سے محسوس ہوتا ہے کہ عدالت نے مزید شواہد طلب کیے ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ ریفرنس بھیجنے والے شخص یا اس سے بیان حلفی لیا جائے ۔
میڈیا پر چلنے والی خبروں کے مطابق صدر پاکستان عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک ریفرنس بھجوایا تھا جس میں ان کی اہلیہ کی بیرون ملک موجود جائیدادوں کو بنیاد بنایا گیا تھا۔ اس ریفرنس کی سماعت جمعہ 14 جون کو سپریم جوڈیشل کونسل میں 5 رکنی بینچ نے کی تھی۔