پولیس عوام،ساتھ ساتھ
تحریر مستنصر امین خاں
E-mail: [email protected]
یہ بات خوش آئند ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کروڑوں عوام کی جان و مال کے تحفظ اور شہریوں کو انصاف کی فراہمی کےلئے قائم کردہ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں تبدیلیاں لائی جاتی رہی ہیں۔ محکمہ پولیس ایک منظم فورس ہے جس میں محنتی اور دیانت دار لوگ موجود ہیں اور محنت کرنے سے کبھی بھی انسان رسوا نہیں ہوتا۔ محنت کرنے سے اللہ تعالیٰ بھی خوش ہوتا ہے اور مخلوق خدا بھی خوش ہوتی ہے۔ عوام پولیس پر بھروسہ نہیں کرتے او رپولیس یہ قبول کرنے کو تیار نہیں کہ وہ عوام کی حفاظت اور رہنمائی کےلئے ہیں اور اس کا کام معاشرے کی خدمت کرنا ہے پولیس کا بنیادی کام جرائم کی روک تھام اور عوام کا تحفظ ہے مگر موجودہ حالات میں پورے ملک کی عوام سب سے زیادہ احساس عدم تحفظ سے دو چار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بھرتیاں سیاست کی بنیاد پر کی جاتی ہیں۔ پولیس کو عوام دوست بنانے کے لئے اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ ٹیکس دینے والی عوام ایک ایسی پولیس فورس کی خواہاں ہیں جو ان کے تحفظ اور خدمت کی ذمہ دار ہو نہ کہ طاقت اور جبر کی علامت، پولیس کے رویے کو بہتر بنانے کے جہاں احتساب کا موثر اور شفاف نظام ضروری ہے وہاں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سیاسی بنیادی پر سفارشتی پھرتیوں کے بجائے قابل اور ایماندار افراد پولیس میں شامل کئے جائیں، برصغیر میں پولیس کا نظام انگریزوں نے اپنے سیاسی اور انتظامی ضرورت کے پیش نظر 1861ءکے پولیس ایکٹ کے تحت قائم کیا تھا۔ یہ لندن میٹروپولیس ایکٹ 1829ءسے بہت مختلف تھا۔ یہ لندن میٹرو پولیس عوام کی خدمت اور تحفظ کےلئے بنائی گئی تھی جبکہ 1861ءکا پولیس ایکٹ ایک نو آبادی کو قابو میں رکھنے کے لئے بنایا گیا تھا۔ جس کا مقصد عوام کو طاقت کے زور پر دبا کر رکھنا تھا نہ کہ انہیں تحفظ فراہم کرنا، پولیس عوام کی خدمت گار نہیں تھی بلکہ حکمرانوں کے ریاستی آلہ کار کی حیثیت رکھتی تھی۔ طاقت اور اکتیارات کی حامل اس پولیس میں انگریزوں نے حکمت عملی کے تحت ان پڑھ اور جاہلوں کو بھرتی کیا اور انہیں عوام کو کچلنے، دبانے اور رعونت سے پیش اانے کی تربیت سے آراستہ کیا۔ سندھ کے ایک سابق انسپکٹر جنرل افضل علی شگری لکھتے ہیں، اس پولیس فورس کا 90فیصد نچلی سطح کے اہلکاروں پر مشتمل تھا ان کو ترقی کے مواقع حاصل نہیں تھے۔ وہ ایک ہی عہدے پر سالوں تک رہتے۔ درمیانی سطح (اسسٹنٹ سب انسپکٹر، سب انسپکٹر (اور علی سطح (اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس) پولیس کا بہت چھوٹا حصہ تھا۔ مخصوص ذہنی رجحان کی حامل یہی پولیس 1947ءمیں پاکستان کو ورثے میں ملی۔ ایک آزاد اور خود مختار جمہوری مملکت میں اس قسم کا پولیس نظام ان بنیادی اصولوں کے خلاف تھا جن کی بنیاد ی اصولوں کے خلاف تھا جن کی بنیاد پر مملکت خداداد وجود میں آئی تھی۔ ایک آزاد ملک میں استبدانہ سوچ رکھنے والی پولیس کو سب سے پہلے عوامی امنگوں اور خواہشات کے مطابق جمہوری معاشرے کے خدوخال کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت تھی۔ مگر انگریزوں کی تربیت یافتہ نوکر شاہی پولیس کو حسب سابق ریاستی آلہ کار کی حیثیت سے برقرار رکھنا چاہتی تھی نوکر شاہی کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ اور حاکمیت کے اظہار میں پولیس کا کردار نہایت اہم تھا۔ ضلعی مجسٹریٹ کو بیک وقت انتظامی اور عدالتی اختیارات حاصل تھے۔ پولیس ضلع مجسٹریٹ کے احکامات کی پابند تھی۔ چنانچہ پورا ظام ضلعی مجسٹریٹ کے گرد گھومتا تھا۔ نوکر شاہی یہ شان شوکت اور اختیارات کھونا نہیں چاہتی تھی۔ دانستہ طور پر ان بنیادی طور پر بنیادی اصلاحات سے گریز کیا جا رہا ہے۔ جو پولیس کے نظام کو ایک جمہوری اور مہذب معاشرے کے مطابق بنانے کےلئے ضروری تھیں۔ جاگیردارانہ پس منظر رکھنے والے سیاستدان کے سیاسی مفادات کا تقاضہ بھی تھا کہ پولیس کو اپنے سیاسی مخالفین پر قابو پانے کا ذریعہ بنایا جائے۔ ایک طرف اگر پولیس حکام اپنی ترقی، تعیناتی اور تبادلوں کے لئے سیاست دانوں پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے تھے تو دوسری طرف پولیس میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کرنا، سیاست دانوں کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ جو ااج بھی نوکر شاہی او رسیاست دانوں کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں پولیس ہر قسم کے احتساب سے بالا تر ہو کر ریاستی اختیارات کی ایک ایسی علامت بن گئی جس میںعوام کی کوئی اہمیت نہیں تھی پولیس میں اصلاحات کے لئے مختلف ادوار میں متعدد بار کوشش کی گئی۔ خصوصا فوجی حکمرانوں کے دور میں اس حوالے صحیح کام ہوا۔ کئی کمیشن قائم ہوئے۔ مختلف سفارشات سامنے آئیں۔ کچھ پر عمل ہوا مگر بیش تر فائلوں میں دفن ہو گئیں۔ پاکستان میں پولیس نظام آج بھی اسی ڈگر پر چل رہا ہے۔ جیسا برطانوی راج میں تھا۔ اس نظام کی کمزوریاں اور خامیاں سب کے علم میں ہیں۔ تشویش ناک امر یہ ہے کہ پولیس اور عوام کے درمیان گہری خلیج حائل ہے۔ جو روز بروزبڑھتی جا رہی ہے۔ پولیس آرڈر 2002ءجنرل پرویز مشرف کے ابتدائی زمانے کا ایک قدم پولیس آرڈر 2002 کا اجراءتھا۔ اس اارڈر کا بنیادی مقصد پولیس کو فورس کے بجائے پبلک سروس بنانا تھا کہ سیاسی مداخلت کے بغیر ایک انتہائی پیشہ وارانہ قابل احتساب پولیس تنظیم قائم کی جا سکے اس آرڈر میں اختیارات اور طاقت کے بے جا استعمال پولیس کارروائی مین سیاسی مداخلت انتظامی معاملات غلط رویوں اور ان جیسے دیگر معاملات کا احاطہ کیا گیا۔ پولیس میں احتساب کو یقینی اور شفاف بنانے کےلئے غیر سیاسی اراکین پر مشتمل ادارے کا قیام شامل تھا۔ جو وفاقی دارالحکومت اور صوبوں میں قائم کئے جاتے تھے۔ پولیس کے اعلی افسران کی مدت ملازمت تین سال متعین کی گئی تھی۔
Leave a Reply