کامریڈ سید منور حسن : رستخیز بود کہ رفت و مغموم ساخت جہان را، رشید یوسفزئی
رشید یوسفزئی
آوارہ خیالات
کامریڈ سید منور حسن : رستخیز بود کہ رفت و مغموم ساخت جہان را
کمیونسٹ پارٹی کی ذیلی تنظیم ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن DSF کی نیم مردہ راکھ سے نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن NSF اٹھی تو اس کے روح رواں دہلی سے آئے مہاجر فیملی کے ٹیلنٹڈ نوجوان سید منور حسن تھے.
عنفوانِ شباب میں ڈی ایس ایف کے سٹیجز سے فصیح و بلیغ اردو میں مارکس و لینن کے حوالوں سے بھرپور پرجوش تقاریر کرتے تھے … لسانی طاقت، فصاحت و بلاغت کے انہی کمالات کی بناء پر 1959 میں نوزائیدہ این ایس ایف کے صدر منتخب ہوئے… لیفٹسٹوں کے رنگ میں مکمل رنگے تھے…..”سرخ ھوگا، ایشیا سرخ ھوگا” کے نعرے ڈھول کی تھاپ کیساتھ لگاتے… خود موسیقی کے زبردست ماہر تھے. سٹیج سے موسیقی کے آلات بجاتے اور سامنے سینکڑوں طلبا رقص کرتے…
ڈی ایس ایف معدوم ہوگئی. کاظمی و معراج محمد خان اور معراج خالد کچھ نیشنل عوامی پارٹی NAP میں چلے گئے کچھ بھٹو کی پیپلزپارٹی PPP میں شامل ہوئے….. کامریڈ سید منور حسن نے تمام ساتھی کامریڈز کے برعکس دائیں طرف کی راہ لی….. بائیں بازو کے ادب و معاشیات کیساتھ ساتھ مولانا مودودی کے لٹریچر پڑھتے تھے.اور اس سے متاثر ہوکر راستہ بدل لیا اور بائیں بازو کے ادب و سیاست کو خیرباد کہا…. جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ میں دل و جان سے شامل ہوئے. اور تادم مرگ جماعت کے ساتھ رہے.
سید صاحب 5 اگست 1941 کو دہلی میں پیدا ہوئے. قیام پاکستان پر کراچی منتقل ہوئے. کراچی یونیورسٹی سے ایم اے سوشیالوجی اور بعد میں ایم اے اسلامیات کی ڈگری حاصل کی … بلا کے ذہین و حاضر جواب تھے. سامعین کے نبض پر ہاتھ رکھنے کافن خوب جانتے تھے جب بولتے تو ہزاروں کے مجمع کو اپنا اسیر بنا لیتے ، کراچی سے کئی اخبارات و جرائد کے مدیر رہے…. جو خطابت تقریر میں تھی وہی معیار نثر نگاری میں بھی قائم رکھا. جماعت اسلامی کے سٹیج پر تنہا خطیب تھے… بھٹو کے خلاف پاکستان نیشنل الائنس PNA بن گئی. نوجوان خطیب و مقرر سید منور حسن جس جلسے میں جاتے سامعین و شرکاء جلسہ کو اپنے فدائی و شیدائی بنا کے آتے. الائنس کے بڑے بڑے لیڈر سید صاحب کیلئے سٹیج چھوڑتے…. عطاء اللہ شاہ بخاری کے بعد مذہبی خطابت کی دنیا منور حسن سے منور تھی.خطابت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے … ستتر کے انتخابات ھوئے….. چھتیس سالہ سید منور حسن نے تمام پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ لئے…. ووٹ لینے کی تعداد میں وزیراعظم بھٹو سے بھی اگے نکل گئے!
سید صاحب بے لاگ و ببیاک بولتے لیکن سنجیدگی و متانت ہمیشہ براقرار رکھتے. ہر پہلو سے نظریاتی طور پر جماعتی رہے. عالمی امور پر جماعت کا چشمہ لگا کر ہی بات کرتے…. لیکن ایمانداری، دیانتداری اور اخلاص پر کبھی سرمو برابر معاملہ نہیں کرتے. منافقت، ڈبل سٹینڈرڈز اور ریاکاری سے ایسا مبرا و پاک شخص وہ بھی سیاست میں دنیا نے نہیں دیکھا ہوگا. دو جوڑے کپڑے، ایک قراقل کیپ کیساتھ دنیائے سیاست میں ائے تھے. انہیں اثاثہ جات کیساتھ آج دنیا چھوڑ گئے. رہائش کیلئے سابق ناظم اعلی کراچی نعمت اللہ صاحب نے گھر کے دو کمرے دیئے تھے…. خرچ کیلئے جماعت اسلامی کی مقرر کردہ وظیفہ پر گزارہ کرتے….. دل کے قلندر تھے… دنیا کے بھی قلندر رہے.
جماعت اسلامی پاکستان کی واحد جمہوری جماعت ہے. یہاں امیر کا بیٹا، بیٹی، پوتا، نواسا کبھی جانشین نہیں بن سکتا. حسب روایات قاضی حسین احمد کے وفات پر مرد قلندر ارکان جماعت کے ووٹ سے امیر جماعت منتخب ہوئے. کافی شکوک و شبہات ہیں کہ ارکان نے کیوں دوبارہ منتخب نہیں کیا….جماعت کے واحد سیٹنگ امیر تھے جو ایسے انداز میں ہٹائے گئے…. شاید سید صاحب کی غیر لچکدار رویہ یا سراج الحق صاحب کی لابنگ سبب بنی. بہر حال جماعت کی اپنی ایک فری میسنری ہے اور باہر کے لوگوں کو کم ہی پتہ چلتا ہے کہ درون منصورہ کیا ہوتا ہے. میرا تعارف انہیں ایام امارت میں، حاضر جوابی و دیانت میں ان کے ہم مثل، ہم نسب و ہم فکر سابق ایم این اے اور جماعت کے موجودہ روابط عمومی کے مسئول سید بختیار مانی Bakhtiar Maani کی توسط سے ہوئی. میں کبھی بھی سید صاحب کے خیالات و نظریات اور سیاسی طرز عمل سے متفق نہیں رہا. لیکن انہوں نے میرے مخالفت و تنقید کو نہ صرف برداشت کیا بلکہ ہمیشہ ایسے جواب دیتے کہ میرا دل جیت لیتے. جب بھی کال کی میرے ملحدانہ سوالات کے جوابات شفقت سے دیتے… اخر میں “راہ راست پر آنے اور دین اسلام کی خدمت” کیلئے طویل و پر خلوص دعا دیتے… کاش مذہبی دنیا کو ایسے لیڈرز اور مل جائے !
سید صاحب کی بہترین صلاحیت ان کی ایماندارانہ حاضر جوابی تھی. جو بھی دل میں حقیقت سمجھتے دنیا و جہان کی پروا کئے بغیر زبان پر لاتے . ساری دنیا بشمول جماعت اسلامی طالبان کی مخالف ہوگئی. سید صاحب نے دفاع کیا… ایک بار دوران گفتگو سوال کیا، سید صاحب یہ آپ نے اچھا کیا کہ روس کو شکست دے کر امریکہ کو دنیا پر مسلط کیا؟ فرمایا ” نزدیکی روس کو شکست دی کہ جگہ خالی ہو. امریکہ یہاں آئے اور اسی پتھر سے اسکا بھی سر کچل دیں. جنرل پاشا کی سربراہی میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے حسین حقانی کی میڈیا و عدالتی ٹرائل شروع کی…. کسی نے سید سے طنزیہ سوال کیا کہ “جناب، حسین حقانی صاحب جماعت کے پلیٹ فارم سے آئے ہیں..ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟”. جواب دیا “میں اب بھی مطمئن ہوں حسین حقانی، جنرل پاشا سے زیادہ ایماندار پاکستانی ہے.”
ایک پاکستانی ٹی وی چینل پر ایک مصاحبہ کیلئے مدعو تھے. میزبان نے سوال کیا: منور حسن صاحب، آپ کہتے ہیں جہاد کے کئی قسمیں ہیں. غربت کی خلاف جہاد، جہالت کی خلاف جہاد… مگر جہاں تک ہم دیکھتے ہیں آپ کا جہاد صرف امریکہ کی خلاف ہی ہے. یہ دوسرے جہاد کب شروع ہوں گے؟. ….. سید منور حسن نے بے ساختہ جواب دیا:”جب امریکہ یہاں سے چلا جائے تب! “.