کبڈی کھیلتا تھا، بھائی نے کرکٹ کی طرف رکھا: حسن علی
دبئی (میڈیا پاکستان) پاکستانی فاسٹ بولر حسن علی کے بارے میں سب کی ایک ہی رائے ہے کہ وہ جب سے پاکستانی کرکٹ ٹیم میں آئے ہیں انہوں نے اپنی بولنگ سے ٹیم میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔حسن علی کی انٹرنیشنل کرکٹ ابھی صرف ایک سال کی ہے لیکن اس مختصر سے عرصے میں وہ ایک کے بعد ایک نیا ریکارڈ اور سنگ میل عبور کرتے جا رہے ہیں اور یہ اسی مستقل مزاج کارکردگی کا نتیجہ ہے کہ وہ آئی سی سی کی تازہ ترین ون ڈے عالمی رینکنگ میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے ہیں۔حسن علی ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ عالمی نمبر ایک بولر بننے کی انھیں بہت زیادہ خوشی ہے۔’اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اتنی عزت بخشی ہے کہ میں آج دنیا کا نمبر ایک بولر بنا ہوں۔ ایک ہی سال میں بہت زیادہ عزت ملی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ میری ان تمام کامیابیوں کا کریڈٹ میری ٹیم کو جاتا ہے۔ یہ میرے والدین کی دعاؤں اور میرے بھائی کی محنت کا نتیجہ ہے۔‘حسن علی کے کریئر میں ان کے بھائی عطاء الرحمن کا نمایاں ہاتھ ہے جو انھیں کرکٹر دیکھنا چاہتے تھے۔’میں کبڈی کا باقاعدہ کھلاڑی نہیں تھا کبھی کبھی شوق میں کھیل لیتا تھا لیکن مجھے بچپن سے کرکٹ کا شوق تھا اور میرے بھائی عطاء الرحمن نے شروع ہی سے مجھے کرکٹ کی طرف رکھا تھا۔ انھوں نے قدم بہ قدم میری رہنمائی کی آج میں جو کچھ بھی ہوں انھی کی وجہ سے ہوں۔حسن علی سے یہ سوال ضرور کیا جاتا ہے کہ ان میں اتنی انرجی کہاں سے آئی ہے کہ ٹیم کو گرنے ہی نہیں دیتے۔ جارحانہ کھیلنے کا انداز یا یہ انرجی جو لوگوں کو میدان میں نظر آتی ہے مجھ میں قدرتی طور پر شروع ہی سے موجود ہے اور یہ میرا فرض بھی بنتا ہے کہ میں ٹیم کو اوپر ہی رکھوں نیچے نہ آنے دوں۔حسن علی اپنے ایک اوور میں مختلف نوعیت کی گیندوں کے ذریعے بیٹسمین کو پرسکون نہیں رہنے دیتے لیکن ان سے سوال تھا کہ آخر کوئی ایک خوبی بتائے جس کے بل پر آپ کو وکٹیں ملتی ہیں؟’میری کوشش ہوتی ہے کہ میں بیٹسمین کو زیادہ رنز نہ کرنے دوں۔ میں لینتھ لائن کا خیال رکھتے ہوئے وکٹوں میں بولنگ کرتا ہوں اور جب آپ بیٹسمین کو کھل کر کھیلنے نہیں دیتے تو وہ غلطی کرکے آپ کو وکٹ دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔حسن علی کا تعلق گوجرانوالہ کے قریبی گاؤں لدھے والا وڑائچ سے ہے جس کے گلی محلوں سے انہوں نے اپنی کرکٹ شروع کی۔ علاقائی سطح پر انڈر 16 کرکٹ بھی کھیلی اور پھر یہ سفر انہیں لاہور لے گیا جہاں انہوں نے سید پیپر ملز کی طرف سے گریڈ ٹو کرکٹ کھیلی جس کے بعد وہ فرسٹ کلاس کرکٹ سے ہوتے ہوئے پاکستان سپر لیگ تک جا پہنچے۔پاکستان سپر لیگ نے صحیح معنوں میں حسن علی کو آگے بڑھنے اور اپنی شناخت بنانے کا موقع فراہم کیا۔میں پہلی پاکستان سپر لیگ میں ایمرجنگ کرکٹر کے طور پر پشاور زلمی میں شامل ہوا تھا اور اس وقت میری یہی کوشش تھی کہ اپنی کارکردگی کو بہتر سے بہتر بنانا ہے اور مجھے خوشی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ میری کارکردگی میں بہتری آئی ہے اور یہ کارکردگی ٹیم کے کام آرہی ہے۔اس سال چیمپینز ٹرافی میں پاکستان کی جیت میں حسن علی کی شاندار بولنگ نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ وہ 13 وکٹیں حاصل کرکے ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے تھے۔بھارت کے خلاف پہلے میچ میں میری کارکردگی اچھی نہیں رہی تھی لیکن پھر اگلے میچوں میں میں نے کوچ کے دیے گئے پلان کے مطابق بولنگ کی اور مجھے وکٹیں ملیں۔ یقیناً سب سے بڑی خوشی پاکستانی ٹیم کی جیت اور ٹورنامنٹ کا بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ ملنے کی تھی۔ حسن علی سابق فاسٹ بولر وقار یونس کے زبردست مداح ہیں اور یہ بھی اتفاق ہے کہ حسن علی نے پاکستان کی طرف سے سب سے کم ٹیسٹ میچوں میں پچاس وکٹیں مکمل کرنے کا وقاریونس ہی کا ریکارڈ اپنے نام کیا ہے۔یہ ریکارڈ قائم کرنے کے بعد حسن علی نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا، ’میرے کئی خواب ہیں۔ میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ میں عظیم وقار یونس کا پچاس وکٹوں کا یہ ریکارڈ توڑ دوں گا۔ میں اسے وقار یونس کے نام کرتا ہوں۔
Leave a Reply