نیب ترامیم کے بعد آمدن سے زائد اثاثے بنانا جرم ہے یا نہیں؟چیف جسٹس آف پاکستان
اسلام آباد:نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ حکومت کا کرپشن ملزمان کو نیب کے دائرہ اختیار سے خارج نا کرنے پر ترامیم کرنا خوش آئند ہے،مجوزہ ترامیم کی منظوری کا انتظار کرنا عدالت کے لیے درست اقدام نا ہو گا،کیس کو کافی عرصے سے سن رہے ہیں مزید انتظار نہیں کر سکتے،اس کیس کے دوران ذاتی طور پر پڑھا کہ کرپشن دنیا کے دوسرے ممالک میں مسئلہ ہے یا نہیں،معاشرے میں کرپشن سے عام انسان کی نظام عدل تک رسائی میں ناکامی ہوتی ہے،پلی پارگین اور رضاکارانہ واپسی کے قانون میں ترمیم بھی خوش آئند ہے،کیا اب نیب ترامیم کے بعد آمدن سے زائد اثاثے بنانا جرم ہے یا نہیں؟منگل کو عدالت عظمی میں معاملہ کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ منگل کو نیب نے حکومت کی جانب سے رواں سال کی گئی ترامیم کی تفصیلات جبکہ وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے نیب ترمیمی آرڈیننس 2023 بھی عدالت میں جمع کروایا ہے۔دوران سماعت وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے ریمارکس دیئے کہ نیب کے حالیہ قانون میں نئی ترامیم آرڈیننس کی صورت میں تجویز کر دی گئی ہیں،نیب ترامیم آرڈیننس کابینہ کی منظوری کے بعد صدر مملکت کے پاس ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے اس موقع پر پوچھا کہ کیا نیب ترامیم نئی ہیں یا ان کا موجودہ کیس سے کوئی تعلق ہے؟ جس پر مخدوم علی خان نے بتایا کہ زیر التوا نیب قانون میں ہی مزید ترامیم کی گئی ہیں،مجوزہ ترامیم سے چئیرمین نیب کے اختیارات میں ردوبدل کیا ہے،آرڈیننس کی منظوری کے بعد چئیرمین نیب کے ریفرنس ختم کرنے کے لیے عدالت کی اجازت لینا ہو گی،نیب قانون کے سیکشن 5 سمیت متعدد شقوں میں ترمیم کی جا رہی ہے،عدالت چاہے تو صدر مملکت کی نیب ترامیم کی منظوری تک کیس ملتوی کر دے،عدالت کا قانون کالعدم قرار دینے کا اختیار بذات خود بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے،عدالتی مداخلت اور کرپشن پر بحث پاکستان تک محدود نہیں ہے،ایک جریدے کے مطابق امریکہ میں دو سیاسی جماعتیں عدالتوں پر اپنے کنٹرول کے لیے لڑ رہی ہیں،عمران خان نے نیب قانون میں 2019 میں پہلی ترمیم کی جو سیاسی انتقام کے لیے تھی،عمران خان کی حکومت نے کرپشن ملزمان کو جیل میں کلاس سی دینے کی ترمیم کی،ترمیم سے اسی عرصے میں مشہور سیاسی شخصیت کو گرفتار کر کے جیل کی کلاس سی میں رکھا گیا۔چیف جسٹس نے ا س موقع پر پوچھا کہ نیب قانون میں جرم کی نوعیت کو کہاں تبدیل کیا گیا ہے؟جس پر وفاقی حکومت کے وکیل کی طرف سے بتایا گیا کہ نیب قانون میں 2019 میں کی گئی ترمیم 2021 میں آرڈیننس کے ذریعے واپس لی،اپوزیشن کی ذمہ داری پارلیمنٹ کو عبور کر کے ہر سیاسی تنازعے کو عدالت میں حل کرنا نہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے ایک موقع پر پوچھا کہ کیا نیب ترامیم کا اطلاق ماضی سے ہونے کے نکتے پر کوئی قانونی نظیر موجود ہے؟نئی نیب ترامیم میں کیا تبدیلی کی گئی ہے؟جس پر عدالت کو وفاقی حکومت کے کونسل نے بتایا کہ نیب کا حالیہ قانون 2019 سے کی گئی ترامیم کا ہی ارتقاء ہے،حکومت نیب قانون سے کرپشن کو مزید مشکل بنا رہی ہے،عدالت نے حنیف عباسی بنام عمران خان کیس میں ایمنسٹی اسکیم سے پبلک آفس ہولڈرز کو ملے فائدے کا ذکر کیا تھا، چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ حنیف عباسی کیس پبلک فنڈز کے متعلق نہیں بلکہ کاغذات نامزدگی کی تصدیق کا تھا، مخدوم علی خان نے آپ ے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ موجودہ حکومت نے عمران دور میں واپس لی گئی ترامیم ہی دوبارہ بحال کیں،آمدن سے زائد اثاثے بنانا جرم ہے یہ جرم ختم نہیں ہوا۔ بعد ازاں کیس کی سماعت بدھ 15 مارچ تک کیلئے ملتوی کر دیا گیا ہے۔