لاہور: عدالت نے مدرسے میں طالب علم سے بدفعلی کے کیس میں گرفتار مفتی عزیزالرحمٰن کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
کینٹ کچہری میں جوڈیشل مجسٹریٹ رانا راشد علی نے کیس کی سماعت کی۔
عدالت کے استفسار پر ملزم مفتی عزیز الرحمٰن نے کہا کہ ‘میں صرف اپنا بیان قلم بند کروانا چاہتا ہوں’۔
علاوہ ازیں تھانہ شمالی چھاؤنی پولیس نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے ملزم سے تفتیش مکمل کرلی ہے۔
پولیس نے کہا کہ ملزم سے تفتیش مکمل ہو چکی ہے اور مزید جسمانی ریمانڈ نہیں چاہیے۔
جس پر عدالت نے ملزم کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا اور آئندہ سماعت پر پولیس سے مقدمے کے چالان کی رپورٹ طلب کر لی۔
خیال رہے کہ پولیس نے مفتی عزیز الرحمٰن کو منہ پر کپڑا ڈال کر عدالت میں پیش کیا تھا۔
ملزم کی گرفتاری
خیال رہے کہ اپنے شاگرد سے بدفعلی کے ملزم کو پولیس نے 20 جنوری کو میانوالی سے دو بیٹوں سمیت گرفتار کیا تھا اور انہیں لاہور منتقل کردیا گیا ہے۔
سی آئی اے ماڈل ٹاؤن کے ڈی ایس پی حسنین حیدر کی سربراہی میں ٹیم نے میانوالی میں چھاپہ مار کر مفتی عزیز الرحمٰن کو گرفتار کیا تھا۔
میانوالی سے مرکزی ملزم کو گرفتار کرنے کے بعد پولیس نے مفتی عزیز الرحمٰن کے ایک بیٹے عتیق الرحمٰن کو کاہنہ کے ایک مدرسے جبکہ دوسرے بیٹے کو لکی مروت سے گرفتار کیا تھا۔
کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی نے دعویٰ کیا تھا کہ مفتی عزیزالرحمٰن کے دو بیٹوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے، جو مدرسے میں اپنے شاگردوں سے بدفعلی میں ملوث تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزمان الطاف الرحمٰن اور عتیق الرحمٰن متاثرین کو ان کے والد مفتی عزیزالرحمٰن کے خلاف مقدمے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیوں میں بھی ملوث ہیں۔
انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس انعام غنی نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ ‘ہم مجرم کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں’۔
انہوں نے بتایا تھا کہ پولیس اس معاملے کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر دیکھے گی، ملزم سے تفتیش کرے گی، سائنسی اور پروفیشنل تحقیقات کر کے مقدمہ چلایا جائے گا اور ملزم کو عدالت سے سزا دلوائی جائے گی۔
آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ ‘ہم چاہتے ہیں ہمارے بچے ان استحصال کرنے والوں سے اور مستقبل کے لیے ہمارا معاشرہ محفوظ رہے’۔
بعد ازاں لاہور کے مدرسے میں طالب علم سے بدفعلی کے کیس میں گرفتار مفتی عزیزالرحمٰن نے تفتیش کے دوران اعتراف جرم کرتے ہوئے شرمندگی کا اظہار کیا تھا۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (ڈی آئی جی) انوسٹی گیشن شارق جمال خان نے بتایا تھا کہ ملزم نے اعتراف کیا کہ چند روز قبل سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو ان کی ہے اورچھپ کر بنائی گئی ہے۔
مفتی عزیزالرحمٰن نے تفتیشی افسر کو بتایا تھا کہ بیٹوں نے طالب علم کو دھمکایا اور اسے کسی سے بات کرنے سے روکا لیکن اس نے منع کرنے کے باوجود ویڈیو وائرل کردی۔