قومی اسمبلی میں فرانسیسی صدر کو ملک بدر کرنے کے معاملے پر منعقدہ اجلاس کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی امجد علی خان نے فرانسیسی میگزین کی جانب گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے خلاف قرار داد پیش کردی۔
اجلاس کے دوران قرار داد کا متن پڑھ کر سناتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فرانسیسی صدر نے آزادی اظہار رائے کا سہارا لے کر ایسے افراد کی حوصلہ افزائی انتہائی افسوسناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے پر بحث کی جائے، تمام یورپی ممالک کو اس معاملے کی سنگینی سے آگاہ کیا جائے، تمام مسلمان ممالک کو شامل کرتے ہوئے اس مسئلے کو بین الاقوامی فورمز پر اٹھایا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ بین الاقوامی معاملات کے حوالے سے فیصلہ ریاست کو کرنا چاہیے کوئی گروہ اس حوالے سے دباؤ نہیں ڈال سکتا’۔
انہوں نے اس معاملے پر ایک اسپیشل کمیٹی کا بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے اور اس کے لیے میری خصوصی درخواست ہے۔
اجلاس کے دوران پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہ ‘مجھے بڑا افسوس ہے کہ تحفظ ناموس رسالت کا معاملہ جس پر پورا پاکستان متفق ہے مگر آپ ایوان میں اسے متنازع بنارہے ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر حکومت نے قرار داد لانی تھی تو اپوزیشن سے بات کی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ یہ قرار داد لائی جارہی ہے، میری گزارش ہوگی کہ ایک گھنٹہ دیا جائے ہم اس کا مطالعہ کرکے اس میں جو اضافی لکھنا ہے وہ سب کے سامنے رکھیں گے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اسپیشل کمیٹی کی کوئی ضرورت نہیں، پورے ایوان کی کمیٹی ہونی چاہیے’۔
شاہد خاقان عباسی کے تحفظات پر ردعمل دیتے ہوئے حکومتی بینچز سے علی محمد خان نے کہا کہ یہ قرار داد جو پیش کی گئی ہے یہ تحریک لبیک پاکستان سے ہونے والے معاہدے کے تحت قرار داد پیش کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ایک نجی رکن کی درخواست پر یہ قرار داد آئی ہے اس پر غور کرلیا جائے اور اسے خصوصی کمیٹی کی طرف بھیج دیا جائے’۔
بعد ازاں جمعیت علما اسلام (ف) کے رہنما مولانا اسد محمود نے کہا کہ گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے جلتی پر تیل کا کام انجام دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘حیران کن بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کی تقریر میں حکومت کی پالیسی سامنے آنے کے بعد ٹی ایل پی سے مذاکرات کس نے کیے، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ٹی ایل پی سے حکومت کے ہونے والے معاہدے کی تفصیلات قوم کے سامنے لائے جائیں’۔
انہوں نے کہا کہ لاہور میں جو کچھ ہوا اسے میڈیا کو عوام کے سامنے لانے کی اجازت دی جانی چاہیے، ملک کے اندر جو حالات پیدا ہوئے ہیں اس حالات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر اس قرار داد کے متن کا دوسرا حصہ ناکافی ہے۔
مولانا اسد محمود کا کہنا تھا کہ ‘وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تحریک لبیک کے ساتھ اس قرار داد کو طے کیا ہے، ختم نبوت، توہین رسالت کا مسئلہ ایک تحریک کا مسئلہ نہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہم وزیر اعظم کی رات کی تقریر کو حکومت کی پالیسی سمجھتے ہیں، پارلیمان کو آگاہ کیا جائے کہ ٹی ایل پی کے ساتھ اصل میں مذاکرات کس نے کیے ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ احتجاجی مظاہروں کے دوران جتنے لوگ زخمی ہوئے یا قتل ہوئے حکومت کو ان کے ذمہ داروں کا تعین کرنا چاہیے۔
جے یو آئی (ف) کے رہنما کا کہنا تھا کہ ‘حکومت کو جب ہنگامی اجلاس طلب کرنا تھا تو اس نے اپوزیشن سے بات کرنے کی زحمت بھی نہیں کی، اسپیکر اسمبلی آپ کا اس معاملے پر عمل جانبدارانہ ہے اور اس پر میں احتجاج کرتا ہوں، میں اس معاملے پر مکمل پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘مجھے امید تھی کہ یہاں فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کی قرار داد پیش کی جائے گی تاہم یہ کمزور قرار داد پیش کی گئی’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اسپیکر صاحب اگر آپ نے آج اس قرار داد پر اپوزیشن کو نظر انداز کیا تو میں حلفاً کہتا ہوں کہ میں آپ کو اس پارلیمنٹ کو نہیں چلانے دوں گا’۔
انہوں نے مزید کہا کہ امید ہے کہ آپ عوام کے جذبات اور قومی اسمبلی ممبران کے جذبات کا خیال ضرور رکھیں گے۔
وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری نے کہا کہ اپوزیشن جو کر رہی ہے، ہم جو کر رہے ہیں اور ٹی ایل پی جو چاہتی ہے، ہمیں ایک ایسے رستے پر چلنا چاہیے کہ تنازعات کو سڑکوں کے بجائے ایوانوں میں حل کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ ناموس رسالت کے مقاصد کی تکمیل کے لیے جو رستے ہیں، اس پر ایوان میں بیٹھے لوگوں اور سڑکوں پر بیٹھے لوگوں کا اختلاف ہوسکتا ہے مگر اس کے مقصد پر اختلاف نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے کہا کہ اس ملک میں کوئی ناموس رسالت کی بات کرے تو اس کا محافظ آئین دستور اور قانون ہے، کسی اور طرف جانے کی ضرورت نہیں۔
نور الحق قادری کا کہنا تھا کہ مجوزہ قرار داد میں مثبت طریقہ کار اور لائحہ عمل اپنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ناموس رسالت کے لیے بھرپور سفارتکاری کی ہے، عمران خان کا عشق رسول سے جو تعلق ہے وہ نہ کسی پیر کا ہے اور نہ کسی مولوی کا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس تعلق کو کئی چیلنج نہیں کرسکتا، انہوں نے شفقت محمود سے کہہ کر 7ویں جماعت کے بچوں کے نصاب میں سیرت نبوی شامل کیا ہے۔
انہوں نے اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم نے آپ کے ختم نبوت کے جذبے کو دیکھا ہے، یہاں انتخابی قوانین میں ختم نبوت کو ختم کیا جارہا تھا، جب ممتاز قادری کو پھانسی دی جارہی تھی، جب 22 نہتے لوگوں کو فیض آباد میں شہید کیا گیا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ حالات کی ستم ظریفی ہے کہ آپ اب یہ نعرے لگانے پر مجبور ہوگئے ہیں، آپ نعرے لگائیں یا نہ لگائیں ہم اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے’۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے احسن اقبال کا کہنا تھا کہ نور الحق قادری نے جو بیانیہ اپنایا یہ وہی بیانیہ ہے جس کی قیمت میں نے ایک گولی کی صورت میں ادا کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ایوان سے جو کچھ ہوا تھا وہ متفقہ تھا تاہم جب اس پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تو پورے ایوان نے بغیر سوالات اٹھائے اسے بدل دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ‘میں فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میں اس خاتون کا بیٹا ہوں جس کو اس ایوان کے اندر ناموس رسالت کا قانون پیش کرنے اور منظور کرانے کا اعزاز حاصل ہے’۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ حکومت کے وزرا نے جو ہماری حکومت کے خلاف بیانیہ دیا میں نے اس کی قیمت اپنی جان پر حملے کی صورت میں ادا کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ‘میرے نبی سے میری نسبت نے مجھے اس گولی سے بچایا، حکومت ناموس رسالت پر سیاست کرتے ہیں، یہ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ جو بھی کلمہ گو ہے اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی ذات اپنے بیوی بچوں اور اپنے ماں باپ سے زیادہ نبی اکرم ﷺ کی ذات کے ساتھ محبت رکھے۔
لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ ‘انہوں نے لوگوں کے جنتی اور جہنمی ہونے کے فیصلے اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں، ہم انتہائی حساس مسئلے پر بحث کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں، کسی کے لیے اس سے اہم مسئلہ کوئی اور ہو نہیں سکتا تو مجھے توقع تھی کہ وزیر اعظم اپنی کرسی پر بیٹھے ہوتے اور وہ خود یہ قرار داد پیش کرتے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘حکومت نے اس موضوع کو اس قابل بھی نہیں سمجھا کہ اس قرار داد کو کسی وزیر کے ذریعے ہی پیش کراتی’۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ قرارداد کسی حکومت کے معاہدے کی روشنی میں پیش کی گئی ہے تو اس کے ساتھ اس معاہدے کو بھی ایوان کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے تھا۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ‘وفاقی وزیر نے کہا کہ جو تنظیم کے ساتھ معاہدہ ہے اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی، کیا وہ معاہدہ اس ایوان سے بالاتر ہے کہ اس پر بات نہیں ہوسکتی، اگر ایسا ہے تو ہمیں گھر چلے جانا چاہیے’۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ جب تک ایوان میں اس موضوع پر کارروائی جاری ہے وزیر اعظم کی یہاں حاضری یقینی بنائی جائے۔
انہوں نے کہا کہ ‘اس قرار داد میں تضادات ہیں، کہا گیا کہ ایوان فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے کے معاملات پر بحث کرے اور یہ بھی کہا گیا کہ یہ کام ریاست نے کرنا ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ناموس رسالت کی قرار داد ہے چاہتے ہیں کہ یہ 22 کروڑ عوام کی ترجمانی کرے اور یہ قرار داد اتفاق رائے کے ساتھ پیش کی جائے۔
وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبندی اسد عمر کا کہنا تھا کہ ‘مجھے یقین ہے کہ ختم نبوت اور ناموس رسالت جتنا میرے ایمان کا حصہ ہے اتنا ہی احسن اقبال کے ایمان کا حصہ بھی ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘سب ہی کے ایمان کا اہم ترین جز اپنے نبی کریم ﷺ کے حرمت کی حفاظت کرنا ہے، بحث صرف یہی ہے کہ ہم ایسا کیا کریں کے کسی میں گستاخی رسول کی کبھی جرات ہی نہ رہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اس مسئلے کا حل کسی کی گاڑی جلا کر، ایک دوسرے پر حملے کرکے ہوسکتا ہے تو ہم یہی کرلیتے ہیں’۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ ‘مجھے یقین ہے کہ اس مسئلے کا عالمی سطح پر حل نکالنے میں پاکستان ہی سب سے آگے ہوگا، حکومت کو کوئی اعتراض نہیں کہ اگر اپوزیشن اس مسئلے میں شامل ہونا چاہتی ہے’۔
بعد ازاں اسپیکر اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن ایک ساتھ مشغول ہوں اور متفقہ دستاویزات لے کر آئیں۔
انہوں نے ایوان کی کارروائی جمعے کی صبح 11 بجے تک کے لیے ملتوی کردی۔