صحافیوں کے حقوق کے تحفظ اور کے الیکٹرانک میڈیا صحافیوں کی قانون سازی کیس
اسلام آباد:اسلام آباد ہائی کورٹ چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت نے صحافیوں کے حقوق کے تحفظ اور الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں کے لیے قانون سازی کی درخواست پر سماعت کی ،عدالت نے سیکرٹری وزارت قانون اور سیکرٹری وزارت اطلاعات کو 6 فروری کو طلب کر لیا، سینئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر بطور عدالتی معاون ،اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کی جانب سے عمر اعجاز گیلانی ایڈووکیٹ جبکہ ایسوسی ایشن کے سیکرٹری حسین احمد، سابق صدر اویس یوسف زئی ،پی ایف یو جے کی جانب سے عادل عزیز جبکہ عدالتی معاون کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز کے وکیل بھی عدالت میں پیش ہوئے دوران سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ چیئرمین آئی ٹی این ای کوشش کر رہے ہیں قانون سازی کے لیے کیا کوئی پراگریس ہوئی ہے؟ جس پر عمر اعجاز گیلانی ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے وزارت اطلاعات کو ترمیمی بل کا مجوزہ ڈرافٹ تیار کر بھجوا دیا ہے، اس موقع پر ہائی کورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن نے عدالت کو بتایا کہ منسٹری میں سیکشن افسر کو پراپر وصول کروایا ہے جس پر عدالت نے کہا کہ چیئرمین آئی ٹی این ای نے بھی ڈرافٹ تیار کر رکھا ہے ،نیوز پیپر ایمپلائیز کے لیے آئی ٹی این ای کا ایک فورم کام کر رہا ہے ،قانون سازی کے بعد الیکٹرانک میڈیا کو بھی شامل کر کے اس کا دائرہ اختیار بڑھایا جا سکتا ہیویسے معذرت کے ساتھ کہتا ہوں کہ مجھے نیوزپیپر والا قانون بھی آج تک سمجھ نہیں آیا کہ وہ ہے کیا؟ اس موقع پر عدالت کو بتایا گیا کہ آئی ٹی این ای میں صرف چیئرمین ہیں ممبرز نہیں ہیں جس پر عدالت نے کہا کہ ابھی آئی ٹی این ای میں ممبرز اور بینچز کا تصور بھی دیا جا رہا ہے مسئلہ نیت کا ہے، کسی کو اس کام کے لیے رٹ پٹیشن میں آنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے حکومت کو خود احساس کرکے ان چیزوں کو کرنا چاہیے، بہتر ہے کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی ہو جائے اس موقع پر عدالت نے کہا کہ حامد میر صاحب بھی آئے ہوئے ہیں وہ میڈیا انڈسٹری سے وابستہ ہیں بہتر بتا سکتے ہیں اس موقع پر علی شاہ گیلانی ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ حامد میر اس کیس میں عدالتی معاون ہیں اور دوسرے کیس میں توہین عدالت کا معاملہ ہیزیر التوا کیس پر کمنٹ کرنے کے باعث کچھ صحافیوں کے خلاف توہین عدالت کا معاملہ ہے جس پر عدالت نے کہا کہ جب عدالتی فیصلہ آ جائے تو وہ پبلک ڈومین میں آ جاتا ہے تبصرے کے لیے الفاظ کا چناؤ درست ہونا چاہئے عدالت نے حامد میر سے استفسار کیا کہ کیا آپ الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں کے حقوق کے لیے قانون سازی کے حق میں ہیں جس پر حامد میر نے عدالت کو بتایا کہ میں الیکٹرانک میڈیا کی قانون سازی کے حق میں ہوں سابق چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مجھے کراس میڈیا کے حوالے سے ایک بڑی اسائنمنٹ دی تھی تحریری گزارشات جمع کرا چکا، کراس میڈیا کے حوالے سے بھی اپنی رائے دے چکا ہوں جس پر عدالت نے کہا کہ صحافیوں کو تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر کا بھی ایشو ہے؟ڈیڑھ دو لاکھ روپے کے بقایا جات کے لیے صحافی سالوں تک ٹریبونل چکر لگاتے ہیں جس پر حامد میر نے عدالت کو بتایا کہ اکثر صحافیوں کے پاس تو تحریری طور پر بھی ملازمت کا کوئی ثبوت نہیں ہوتاپیمرا کو قانون میں اختیار دیا گیا ہے کہ وہ صحافیوں کے حقوق کا تحفظ کریچیف جسٹس نے پیمرا سے تجویز بھی مانگی تھی پیمرا آرڈی نینس کے پری ایمبل میں لکھا ہوا ہے کہ وہ تحفظ دیں گے ،اس موقع پر پیمرا وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اگر قانون سازی کے بعد پیمرا کو یہ اختیار دیا جائے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے اس موقع پر عدالت نے کہا جب یہ چیزوں آگے بڑھیں گی تو کیا اس میں کسی جانب سے مزاحمت کا سامنا بھی ہو سکتا ہے؟ اس موقع پر حامد میر نے عدالت کو بتایا کہ ہو سکتا ہے کہ میڈیا اونرز کی تنظیم اس میں رکاوٹ بنے ہوں جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا موجودہ حکومت کی مرضی اور خواہش ہے کہ وہ یہ کام کرے گی؟ جس پر حامد میر نے عدالت کو بتایا کہ حکومت وعدہ تو کرتی ہے مگر اس پر عمل نہیں ہوتا جس پر عدالت نے کہا ویسے تو یہ کوئی سیاسی معاملہ نہیں کسی حکومت کو اعتراض نہیں ہونا چاہئیاگر موجودہ حکومت یہ کرنا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ یہ کام کر گزرے عدالت نے سیکرٹری قانون اور سیکرٹری اطلاعات کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 6 فروری کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی