ارشد شریف قتل کیس :جے آئی ٹی کی تحقیقات پر اثر انداز نہیں ہوں گے ،چیف جسٹس
اسلام آباد:سپریم کورٹ نے ارشد شریف قتل کیس میں ریمارکس دیئے کہ یہ جے آئی ٹی کیلئے ٹیسٹ کیس ہے ،تحقیقات میں اثر انداز نہیں ہوں گے ،جے آئی ٹی کو مکمل آزادی دے رہے ہیں معاملے کی صاف شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں،عدالت صاف شفاف تحقیقات کیلئے بہت سنجیدہ ہے، کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے کی،ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے جے آئی ٹی کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ پر عدالت کو بتایا کہ سپیشل جے آئی ٹی نے 41 لوگوں کے بیانات ریکارڈ کئے ہیں، تحقیقات کینیا، یو اے ای اور پاکستان سمیت تین حصوں پر مشتمل ہے، جے آئی ٹی نے اب انکوائری کیلئے کینیاجانا ہے، پندرہ جنوری سے قبل جے آئی ٹی کنیا اس لئے نہیں جاسکی کیونکہ وہاں چھٹیاں تھیں،جے آئی ٹی پہلے یو اے ای اور وہاں سے کینیا تحقیقات کیلئے جائے گی، چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ مقتول کے پاکستان سے ڈیپارچر کی صورتحال کو دیکھنا ہوگا،لگتا ہے حکومت نے باہمی قانونی معاونت کا خط لکھنے میں تاخیر کی،ممکن ہے کہ باہر کوئی زیادہ وقت نہ ملے اس لئے جے آئی ٹی کو یہاں سے اپنا کام مکمل کرکے جانا چاہیے، جے آئی ٹی نے جن 41 لوگوں سے انکوائری کی، کیا وہ پاکستان میں ہیں؟ کیا جے آئی ٹی نے کسی سے ویڈیو لنک کے ذریعہ انکوائری کی ہے؟ارشد شریف کے کچھ ڈیجیٹل آلات ہیں جو ابھی تک نہیں ملے، کیا جے آئی ٹی کو یہ پتہ چلا کہ وہ آلات کدھر ہیں؟ جے آئی ٹی کے سربراہپتہ چلائیں ۔،جسٹس اعجاز الحسن نے اس موقع پر پوچھا ہے کہ کینیا اتھارٹی متعلقہ لوگوں کو پیش کرنے کے لیے تیار ہے،جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ وزارت خارجہ کے ذریعے کینیا کے جن لوگوں سے تحقیقات کرنی ہیں ان کے نام دیئے ہیں ،کل ہی یہ خط لکھا گیا ہے،جے آئی ٹی کو وزارت خارجہ کی مکمل مدد حاصل ہے،کینیا کی اتھارٹیز کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ جو لوگ باہر ہیں ان سے پہلے کینیا جاکر انکوائری ہوگی، کینیا میں ان لوگوں سے تحقیقات کے بعد انٹرپول سے رابطہ کیا جائیگا،جسٹس اعجازالحسن نے اس موقع پر کہا تین فیز پر مشتمل تحقیقات میں کیا فیز 1 کی تحقیقات مکمل ہوگئی ہیں،جس پر ایڈیشنل اٹارجی جنرل نے بتایا کہ فیز ون کی تحقیقات تقریبا مکمل ہوچکی ہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کیا تحقیقات مکمل ہونے کا کوئی ٹائم فریم ہے، عدالت کو بتایا گیا کہ تحقیقات مکمل ہونے کی ٹائم لائن نہیں دی جاسکتی، جے آئی ٹی پہلے دبئی، پھر کینیا تحقیقات کریگی،جسٹس مظاہر علی نقوی نے پوچھا کیاجے آئی ٹی نے سب کے سیکشن 161کے بیانات ریکارڈ کئے ہیں، جس پر جے آئی ٹی کے سربراہ نے بتایا کہ تمام لوگوں کے بیانات سیکشن 161 کے تحت ریکارڈ کئے گئے ہیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 41 لوگوں کے بیان سیکشن 161 کے تحت ریکارڈ ہوئے ہیں، جسٹس اعجازالحسن نے پوچھا کیا امکان ہے کہ تحقیقات میں اقوام متحدہ کو شامل کیا جائے،جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ضرورت پڑے گی تو یہ آپشن بھی موجود ہے، جسٹس مظہر علی نقوی نے پوچھا وزارت خارجہ کی طرف سے کینیا کی اتھارٹی کو خط گزشتہ روز کیوں لکھا گیا،وزارت خارجہ خط پہلے بھی لکھ سکتی تھی،تحقیقات میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کر رہے ہیں،عدالت جے آئی ٹی کو تحقیقات کیلئے آزادی دے رہی ہے،معاملے کی صاف شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں،عدالت صاف شفاف تحقیقات کیلئے بہت سنجیدہ ہے۔اس دوران ،ارشد شریف کی اہلیہ روسٹرم پر آگئیں اور عدالت کو بتایا کہ جے آئی ٹی کے دو ارکان ہمارے نامزد ملزمان کے ماتحت ہیں، اس کیس میں دہشت گردی اور قتل کی سازش کی دفعات شامل ہونی چاہیے،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو جے آئی ٹی پر بھروسہ رکھنا چاہیے ، ہم یہاں بیٹھے ہیں تمام پہلوئوں کا جائزہ لے رہیں،کسی ریٹائرڈ لوگوں کو جی آئی ٹی میں شامل نہیں کر سکتے،اے ڈی خواجہ ماضی میں آئی جی رہ چکے ہیں، جے آئی ٹی کو کام کرنے دیں اداروں پر ٹرسٹ کریں،بعض اوقات ماتحت بھی بہت کچھ کر جاتے ہیں،جی آئی ٹی نے جو اقدامات اٹھائے وہ 20 دن پہلے اٹھائے جانے چاہئے تھے، امید ہے اب جے آئی ٹی یہ بات ذہن نشین رکھے گی،رپورٹ میں بڑی گہری باتیں ہیں جو یہاں نہیں کر سکتے۔ ، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جے آئی ٹی اس معاملہ کی تحقیقات کر رہی ہے،جے آئی ٹی تمام پہلوؤں سے تحقیقات کرے گی،عدالت عظمی نے اس موقع پرقرار دیا کہ کہ وفاقی حکومت نے جے آئی ٹی کو تحقیقات کیلئے فنڈز فراہم کئے ہیںجبکہ چار دسمبر کو میوچل لیگل اسسٹنس کے خطوط لکھے ہیں،وفاقی حکومت پرامید ہے کہ باہمی قانونی تعاون کے خطوط پر ممالک سے اچھا رسپانس آئے گا،جے آئی ٹی نے ابتک 41 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کئے ہیں،اصل ایشو ارشد شریف قتل کی تحقیقات کا تعلق غیر شواہد کا ہے،امید کرتے ہیں جے آئی ٹی معاملے پر اچھی طرح تیار ہو کر تحقیقات کیلئے بیرون ملک جائے گی،بعد ازں عدالت عظمی نے سماعت فروری کے پہلے ہفتے تک کے لئے ملتوی کر دی ہے۔