آئی جی پنجاب کو عہدے سے کیوں ہٹایا گیا؟
لاہور (ایمرا نیوزآن لانن)
حکومت کسی کی بھی ہو وہ چاہتا بادشاہت ہے۔جمہوریت کے نام پر پاکستان میں ایک قسم کی بادشاہت ہی رہی ہے کیونکہ یہاں کے حکمران عوام کو ریلیف دینے کی بجائے افسران اور عہدیداران سے نہ سننے کے روادار نہیں۔انہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ جو آرڈر ہم افسران کو دے رہے ہی وہ جائز بھی ہے یا نہیں وہ بس اس آرڈر پر عملدرآمد کے خوہش مند ہوتے ہیں۔ تبدیلی حکومت کے 8ماہ میں پنجاب کے3آئی جی تبدیل کیے گئے ابھی بھی نہیں پتا کہ یہ معاملہ کب تک جاری رہے گا۔تاہم گزشتہ روز آئی جی پنجاب کو عہدے سے ہٹائے جانے پر خاصی تنقید ہو رہی ہے۔سینئر صحافی عارف حمید بھٹی نے نجی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ آئی جی پنجاب امجد سلیمی کو حمزہ شہباز کو گرفتار نہ کرنے کی پاداش میں عہدے سے ہٹایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا صرف آئی جی ہی نہیں بلکہ ہوم سیکرٹری پنجاب فضیل اصغر کو بھی اسی پاداش میں ہٹایا گیا ہے۔عارف بھٹی نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پچھلے دنوں دو درجن کے قریب افسروں کے تبادلے کی وجہ یہی تھی کہ حکمران نہ سننے کے حق میں نہیں۔موجودہ حکومت بھی وہی کچھ کر رہی ہے جو اس سے پچھلی حکومتیں کرتی رہی ہیں۔پنچاب کے36اضلاع میں 36ڈی پی او اور اتنے ہی ڈی سی او ہیں کیا ان میں سے کوئی بھی ایماندار نہیں جو یہ ہر چوتھے روز کسی نا کسی کا تبادلہ کر دیتے ہیں۔
عارف حمید بھٹی نے کہا کہ سیاستدان افسروں کے تبادلے کرانے میں ماہر اور اپنی مرضی کا بندہ اور فیصلہ چاہتے ہیں۔اب زلفی بخاری صاحب پنجاب بینک کا سربراہ ایک ایسے بندے کو لگانا چاہتے ہیں جس کی کوئی قابلیت ہی نہیں ہے اور سنیارٹی میں بھی وہ ابھی پیچھے ہیں۔اب اس بات پر سیکرٹری فنانس نے کہاکہ یہ بندہ اتنا کریڈیبل نہیں ہے اس لیے میں اس کو پنجاب بینک کا صدر تعینات نہیں کر سکتا اس جواب پر سیکرٹری فنانس کو ہی بدل دیا گیا۔اب یہاں سے اندازہ لگائیں کہ اگر ان کی بات نہیں مانی جاتی اور ان کی سفارش بھی کام نہیں آتی تو متعلقہ افسر کو تبدیل کر دیا جاتا ہے۔